کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 536
والوں کو اس کا حکم دیتے تھے۔‘‘ [النشر:۲/۴۲۷] موصوف رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں : ’’جب اللہ کے فضل خاص سے مجھے مکہ کے پڑوس میں رہنے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ جس نے بھی مسجدالحرام میں نماز تراویح پڑھائی وہ سورہ والضحی سے لے کر آخر تک تکبیرکہتا، لہٰذا میں نے سمجھ لیا کہ یہ سنت اہل مکہ کے تعامل میں تاحال جاری ہے۔‘‘ [النشر:۲/۴۲۸] امام جزری رحمہ اللہ اس سلسلہ میں فقہی مذاہب پر تنقیدکرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’امام شاطبی رحمہ اللہ سے تکبیرثابت ہوجانے کے باوجود اکثر شوافع کی کتب میں تکبیر کے بارے کوئی نص نہیں ملتی۔ شوافع میں سے اس کوتفصیلاً نقل کرنے والے امام ابوالحسن سخاوی رحمہ اللہ ، امام ابواسحاق الجعبری رحمہ اللہ ہیں ۔ علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ ، جو اکابر اصحاب شوافع میں سے تھے اور مرتبہ اجتہاد پر فائز تھے، نے بھی اس باب میں مفصلا بحث کی ہے۔ اسی طرح ہمیں شیخ الشافعیہ امام ابوالثناء محمود بن محمد بن جملہ رحمہ اللہ سے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ تکبیر پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے اور کبھی کبھار تراویح میں اس پر عمل بھی کرتے تھے۔‘‘ [النشر:۲/۴۲۷] حافظ ابن جزری رحمہ اللہ اس سلسلہ میں ایک واقعہ ذکر فرماتے ہیں : ’’ایک مرتبہ ایک بچے نے نماز تراویح میں اختتام قرآن کے موقع پرمعمول کے مطابق تکبیر کہہ دی،جس پربعض شوافع نے اعتراض کردیاکہ یہ درست نہیں ہے، چنانچہ امام زین الدین عمر بن مسلم القرشی رحمہ اللہ نے جواب دیاکہ ایساکرنا درست ہے اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ سے ثابت ہے، جس کو امام سخاوی رحمہ اللہ اور علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ نے نقل کیاہے۔ اس کے بعد میں نے شیخ الاسلام ابوالفضل عبدالرحمن بن احمدالرازی الشافعی رحمہ اللہ کی کتاب الوسیط میں دیکھاکہ اس میں نماز کے اندر تکبیر پڑھنے کی نص موجود ہے۔ ‘‘[النشر:۲/۴۲۷] الاتحاف میں مذکور ہے: ’’ میں کہتا ہوں کہ جیساکہ خاتمۃ المجتہدین امام محمد البکری رحمہ اللہ صاحب الکنزسے اس کے بعض جلیل القدر اصحاب نے نقل کیا ہے، جس کاخلاصہ ہے کہ نماز کے اندر سورہ والضحی سے لے کر آخر قرآن تک لا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر واللّٰہ الحمد پڑھنا اسی طرح مستحب ہے جیسے خارج نمازمیں مستحب ہے، جس کا مقصود اللہ کی حمد اور بڑائی بیان کرنا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے منہ میں خاک پھینکنا ہے۔‘‘ [۲/۶۴۸] اس کے بعد امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’باوجود تتبع اورتلاش کے میں اپنے اصحاب یعنی شافعیہ کی کتب میں (چند ایک مذکورہ مثالوں کے علاوہ) تکبیر کے بارے میں کچھ نہیں پاسکا اور یہی حالت حنفی اور مالکی فقہاء کی ہے۔ البتہ حنابلہ میں سے امام ابوعبداللہ محمد بن مفلح رحمہ اللہ نے اس موضوع پر اپنی کتاب الفروع میں بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کیا سورہ والضّحیسے لے کر آخر قرآن تک تکبیرکہی جائے گی؟اس میں حنابلہ سے دو روایتیں مروی ہیں ، البتہ حنابلہ کی عمومی رائے یہی ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے علاوہ کسی کی قراءت میں بھی تکبیر نہ پڑھی جائے، کیونکہ روایت کی رو سے مروی ہی ان سے ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ ابن کثیر کی قراءت میں تہلیل بھی پڑھی جائے گی۔‘‘ [النشر:۲/۴۲۸] فضیلۃ الشیخ عبد الفتاح السید عجمی المرصفی رحمہ اللہ محقق کی مذکورہ رائے پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کے دعویٰ کہ میں شافعیہ کی کتب میں تکبیر کے بارے میں کچھ نہیں پاسکا، سے مراد دراصل مذکورہ