کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 520
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیاکہ کون ساعمل سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پر ایمان لانا، پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر مقبول حج۔ ۲۔ بعض روایات میں افضل ترین عمل کی تشریح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نمازکو اس کے وقت پرپڑھنا،پھر ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کرنا، پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:((علیک بالصوم فإنہ لامثلَ لہ)) ۔ روزہ کی پابندی مضبوطی سے کرو کیونکہ ریا سے دور ہونے میں کوئی عمل بھی اس کے مثل نہیں ہے۔ ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ((واعلموا أن خیر أعمالکم الصلوٰۃ)) جان لو کہ تمہارے اَعمال میں سے سب سے بہتر عمل نماز ہے۔[عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۲] جواب حدیث: الحالّ المرتحل کی افضلیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی، کیونکہ بعض وقت کسی شے کو افضل کہا جاتاہے اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی افضل چیزوں میں سے ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نماز، روزہ، جہاد، حج، عمل الحالّ المرتحل وغیرہ کا مجموعہ اعمال کے اس طبقہ میں شامل ہے، جو سب طبقوں سے اعلیٰ ہے۔ [عنایات :۳/۴۸۳، ’بتصرف‘] شبہ نمبر ۵۔ محدثین کرام نے اس تفسیر کو حدیث میں مدرج کرکے شامل کیاہے اور ممکن ہے کہ یہ تفسیر کسی راوی کی طرف سے ہو۔ اس شبہ کو حافظ ابوشامہ رحمہ اللہ یوں ذکر فرماتے ہیں کہ وہ تفسیر جس کو امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے بیان کیاہے، ممکن ہے کہ حدیث میں بعض راویوں کے کلام سے داخل ہوگئی ہو۔یہی وجہ ہے کہ جامع ترمذی میں بھی تفسیرکے بغیر الحالّ المرتحل ہی آیا ہے اور گویا سوال کرنے والے بھی راوی ہی ہیں ، جن میں سے ایک نے دوسرے سے سوال کیا، پھر اس نے جواب میں وہ تفسیر بتادی جو اس کی سمجھ میں آئی۔ [عنایاتِ رحمانی: ۳/۴۸۲] جواب محقق ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہمارے علم کی حد تک موصوف رحمہ اللہ کی طرح کسی نے بھی حدیث میں اس تاویل کے مدرج ہونے کی تصریح نہیں کی، بلکہ اس حدیث کے ناقلین دو طرح کے ہیں : ۱۔ وہ جنہوں نے تصریح کی ہے کہ یہ تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، جیساکہ اکثر روایات میں اسی طرح ہے۔ ۲۔ وہ جنہوں نے حدیث کے ایک حصہ کے نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور جس حصہ میں تفسیر ہے، اس کو بیان نہیں کیا۔ نیز دونوں روایتوں میں منافات بھی نہیں ہے۔ پس جس روایت میں تفسیر ہے، اس کا مطلب بھی وہی لیں گے جو اس روایت کا ہے جس میں تفسیر نہیں ہے اور جب معنی میں خلل نہ آئے تو حدیث کے بعض حصہ کا روایت کرنا بھی بلاشک درست ہے۔ اس میں کسی کا بھی خلاف نہیں ہے اور