کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 518
’’حالّ:قرآن کریم کا ختم کرنے والا ہے۔ اس کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس نے سفر کیا اور چلتا رہا حتیٰ کہ جب منزل پر پہنچ گیا، تو وہاں اتر گیا۔ اسی طرح قاری بھی قرآن کریم پڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے آخر میں پہنچ جاتاہے توٹھہرجاتاہے۔ اور المرتحل: قرآن کریم کا شروع کرنے والاہے۔ اس کو اس شخص کے مرتبہ میں قرار دیا گیا ہے، جو سفر کا ارادہ کرے اور پھر چل کر اس کو شروع بھی کردے۔ ‘‘[عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۲] امام قتیبہ رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں : ’’کبھی ان کلمات کا اطلاق الخاتم المفتتح یعنی جہاد کے ختم اور شروع کردینے والے پر بھی ہوتا ہے،جس کی صورت یہ ہے کہ ایک مجاہد پہلے ایک جنگ میں مشغول ہو، پھر اس کے ختم ہوتے ہی دوسری جنگ شروع کردے۔ الحالّ المرتحلبھی اسی طرح ہے، یعنی یہ بھی دوسری جنگ کو پہلی سے متصل کردیتا ہے۔‘‘ [عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۲] جواب امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ کاکلام اس پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ اس حدیث کی تفسیر میں علمائے متقدمین کا اختلاف ہے، بلکہ اس سے توزیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اوّلاً توانہوں نے وہی قاری والی تفسیر بیان کردی جو حدیث میں مذکور تھی، پھر آخر میں اپنی طرف سے حدیث کی تشریح کے طور پرجہاد والی تفسیر بھی بیان کردی اور یہ بات ان کی تقریر سے پوری طرح واضح ہے۔ [عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۴] شبہ نمبر ۳۔ مسلسل جہاد والی تفسیر بالکل واضح اور صراحۃً لفظ کے مطابق ہے،کیونکہ اس تقدیر پر حِلّ اور ارْتِحَال دونوں اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہیں اور جو معنی قراء کرام نے بتائے ہیں وہ مجازی ہیں ، جن میں قرآن کریم کے ختم کرنے والے کو مقیم سے اور شروع کرنے والے کو مسافر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس اعتراض کی وضاحت حافظ ابوشامہ رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں : ’’جہاد والی تفسیر ظاہر ہے۔ اس میں لفظ اپنے حقیقی معنی پررہتا ہے،کیونکہ جہاد میں قیام و سفر دونوں حقیقتاً پائے جاتے ہیں ۔‘‘[عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۲] جواب یہ کہنا کہ مسلسل جہاد والی تفسیر لفظ سے بالکل ظاہر اور واضح ہے، محل نظر ہے کیونکہالحالّ المرتحلکا لفظ حقیقت ِشرعیہ کے اعتبار سے مسلسل جہاد کے مراد ہونے پردلالت نہیں کرتا، کیونکہ اس صورت میں ضروری تھا کہ خود شارع علیہ السلام اس کی وضاحت فرماتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ چنانچہ یہ کلمات حج و عمرہ اور تجارت وجہاد وغیرہ کے ہر سفر اور قیام کو شامل ہیں ۔ رہا یہ کہ اس کی جو تفسیرقراء کرام نے کی ہے، وہ اس کے مجازی معنی ہیں ، چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تاویل قراء ہی نے کی ہے، حالانکہ حقیقت ِ صورتحال اس سے مختلف ہے۔ آپ ذیل میں پیش کی گئی روایات پر غور فرمائیں اور دیکھیں کہ کیااَمر واقعہ میں ایسا ہی ہے: ۱۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ابھی گزرا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ یارسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم أی