کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 509
امام ابن نجار فتوحی رحمہ اللہ وھذا غیر متواتر، فلا یکون قرأنا، فلاتصح الصلوٰۃ بہ علی الاصح ’’قراءات شاذہ غیر متواتر ہونے کی بنا پر قرآن نہیں ہیں لہٰذا صحیح تر بات یہی ہے کہ ان شاذ قراءات سے نماز جائز نہیں ۔‘‘ [شرح الکوکب المنیر:۲/۱۳۶] علامہ ابن القاسم مالکی رحمہ اللہ سوال:آپ سے پوچھا گیا، اگر کوئی شخص نماز میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءات پڑھنے والے کی اقتدا میں نماز پڑھ لے تو اس کے بارے میں کیاحکم ہے؟ جواب: وہ شخص جس نے شاذ قراءات پڑھنے والے کی اقتداء کی اسے چاہئے کہ نماز کے وقت میں ہی یا نماز کے وقت کے بعد اسے لوٹائے۔[المدونۃ الکبریٰ،کتاب الصلوٰۃ الاوّل: ۱/۸۴] علامہ ابوالبرکات الدردیر رحمہ اللہ دس کے علاوہ دیگر سب قراءات شاذ ہیں ، اگر کوئی شاذ قراءات جو رسم عثمانی کے مخالف ہوتی ہیں ان کی نماز میں تلاوت کرے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ [بلغۃ السالک علی اقرب المسالک فی مذھب الإمام مالک:۱/۴۳۷] علامہ زرکشی رحمہ اللہ(تلمیذ امام سخاوی رحمہ اللہ ) لا یجوز ان یقرأ بالقراءۃ الشاذۃ فی صلاۃ ولا غیرھا عالما بالعربیۃ کان أو جاھلا وإذا قرأھا قارئ، فان کان جاھلاً بالتحریم عرف بہ وأمر بترکھا،واذا عان عالما أدب فان اصرحبس حتی یرتدع [البرھان فی علوم القرآن، للزرکشی:۱/۴۸۲] ’’جو شخص عربی دان ہو یاعربی سے بالکل ناواقف ، دونوں میں سے کسی کے لیے بھی قراءات شاذہ کی تلاوت نماز میں یا علاوہ نماز کے جائز نہیں ، اگر اسے شاذ قراءات کی حرمت کاعلم نہیں تو اسے بتایا جائے کہ آئندہ ایسا کرنے سے باز آجائے، اگر وہ شخص جوعلم رکھتا ہے وہ جاننے کے باوجود ان شاذ قراءات کی تلاوت کرتاہے، اُسے سزا دی جائے اگر وہ اصرار کرنے لگے تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے اس نظریے سے توبہ کرلے۔‘‘ علامہ شہاب الدین الرملی رحمہ اللہ من قرأ بالشاذ،ان کان جاھلاً بتحریمہ عرف ذلک، فان عاد الیہ بعد ذلک اوکان عالمابہٖ عزر تعزیرا بلیغا إلی أن ینتھی عن ذلک ویجب علی کل مکلف قادر علی الانکار أن ینکر علیہ[فتاویٰ الرملی،باب فی مسائل شئ:۴/۳۲۰] ’’ جس نے شاذ قراءات تلاوت کی اگر وہ ان کی حرمت سے ناواقف ہے تو اس کو بتایا جائے اور وہ دوبارہ ایسا کرے یاکوئی عالم اس کو پڑھے تو ان سب کو سخت سزا دی جائے،یہاں تک کہ وہ اس سے باز آجائیں ۔ہر وہ شخص جو مکلف ہے اور قدرت رکھنے والا ہے اس پر واجب ہے کہ ان شاذہ قراءات پڑھنے والے کا انکار کرے۔‘‘