کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 508
اَقوال العلماء
امام مالک رحمہ اللہ
امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ شاذ قراءات کے بارے میں اس طرح ہے۔
’’من قرا فی صلاتہٖ بقراءۃ ابن مسعود وغیرہ من الصحابۃ مما یخالف المصحف لم یصل وراء ہ‘‘ [التمہیدلابن عبدالبر:۸/۲۹۳]
’’جو شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی کی قراءت نمازمیں تلاوت کرتاہے جو مصاحف عثمانیہ کے خلاف ہو، تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ
آپ نے قراءات شاذہ کی تلاوت اور نماز میں شاذ قراءات پڑھنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پرامت مسلمہ کے تمام علماء کااجماع نقل کیا ہے اور کچھ افراد نے اس بات سے اختلاف کیاہے تو آپ نے انہیں امت کے اس اجماعی مسئلہ سے منحرف قرار دیا ہے۔ [حوالہ سابقہ]
علامہ سرخسی رحمہ اللہ
ولھذا قالت الامۃ لوصلی بکلمات تفرد بھا ابن مسعود لم تجز صلاتہ لانہ لم یوجد فیہ النقل المتواتر و باب القرآن باب یقین و امالحۃ فلا تثبت بدون النقل المتواتر کونہٖ قرآنا
[أصول سرخسی، فصل فی بیان الکتاب وکونہ حجۃ:۱/۲۸۰]
’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تفردات یعنی شاذ قراءات نماز میں پڑھے گا اس کی نماز نہ ہوگی، کیونکہ اس میں نقل متواتر موجود نہیں اور جومتواتر نہیں اسے قرآن نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
علامہ سرخسی رحمہ اللہ کا دوسرا قول
’’ما لم یثبت انہ قرآن فتلاوتہ فی الصلوٰۃ کتلاوۃ غیر فیکون مفسدا للصلوٰۃ‘‘
’’جس کا قرآن ہوناثابت نہ ہو، نماز میں اس کی تلاوت غیر کی تلاوت کی مانند ہے اس کی نماز باطل ہے۔‘‘ [حوالہ سابقہ]
قاضی ابویوسف رحمہ اللہ
’’ولو قرأ بقراءۃ لیست فی مصحف العامۃ کقراء ہ ابن مسعود وأبی تفسد صلاتہ‘‘
’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور اُبی رضی اللہ عنہ کی وہ قراءات جو مصحف عامہ کے خلاف ہوں اگر کسی نے ان کو نماز میں پڑھ لیا تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔‘‘ [التقریر والتحبیر علی التحریر، لابن ھمام:۲/۲۱۵]
علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلے مصحف کو نماز میں تلاوت کرنے سے نماز درست نہ ہوگی، کیونکہ وہ مصحف عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ ہوگیاتھا۔ [حوالہ سابقہ]