کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 507
دکھائی نہیں دیتی جو ان کی نمازوں کو غلط کہے اور نہ ہی ان کے نمازیں باطل ہونے کے متعلق کسی نے فتویٰ دیا۔ جس طرح قرائے اُمت مختلف قراءات روایت کرتے تھے اور انہی قراءات کے مطابق نمازیں پڑھتے تھے، ان کے پیچھے کبار علما بھی موجود ہوتے تو ان محدثین فقہاء اور جلیل القدر علماء رحمہم اللہ پربھی الزام آئے گا کہ انہوں نے اُمت کو اس فتنے سے بچانے کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہ کیا۔آخر ان ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی نمازوں کاکیابنے گا؟ جو انہوں نے اپنے قراء اساتذہ سے تلقی کے ساتھ سیکھی ہوئی قراءات کے مطابق پڑھیں ۔ قرون ِ اولیٰ میں لوگ جامع العلوم ہوتے تھے۔ قراء محدثین کے بعد محدثین قراء کے شاگرد ہوتے تھے۔لیکن انہوں نے قراءات نماز سے پڑھنے پر روکاکیوں نہیں ۔
ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ ہوتاہے کہ قراءات کے مطابق نماز پڑھنادرست ہے۔ جو اس کے خلاف فتویٰ جاری کرے گا گویا کہ اس نے امت کے اجماعی موقف اور متفق علیہ مسئلہ کو جان بوجھ کر مختلف فیہ بنایا ہے۔عامۃ الناس کو گمراہ کیا ہے۔العیاذ باللّٰہ
امام شافعی رحمہ اللہ کا نماز میں تکبیرات بزی سماعت فرمانا
امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک شخص کو حالت نماز میں تکبیرات بزی(جو آخری قرآن میں سورتوں کے اواخر پر پڑھی جاتی ہیں ) پڑھتے ہوئے سنا۔(فقال لہ أحسنت، أصبت السنۃ) آپ رحمہ اللہ نے اسے کہا کہ(اے بھائی)تو نے بہت اچھا کیا۔ تو نے سنت کو پالیا یعنی سنت کے مطابق عمل کیا ہے۔
[تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الضحٰی+ جامع البیان از دانی، ص۵۲۳]
وضاحت
بلاشبہ تکبیرات قرآن نہیں بلکہ یہ سنت ہیں اور قرآنوں میں ان کالکھنا جائز نہیں ۔ان تکبیرات کی مکمل تفصیل کتب قراءات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تکبیرات جو کہ قرآن کا حصہ نہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تکبیرات پڑھنے والے کی نماز درست ہے اگردرست نہ ہوتی تو امام اسے ٹوک دیتے یابعد میں مسئلہ سمجھا دیتے۔ لیکن انہوں نے تحسین فرمائی۔اگر تکبیرات نماز میں جائز ہیں تو مختلف قراءات جو کہ قرآن ہی ہیں ان کا پڑھنا بالاولیٰ جائز و صحیح اور ثابت ہے۔
نماز میں شاذ قراء توں کی تلاوت کا حکم
نماز اور غیر نماز میں قراءات شاذہ کاحکم یکساں ہے کہ قرآنیت کااعتقاد کرکے ان کی تلاوت جائز نہیں ، علماء نے صرف بطور علم ان کو پڑھنا پڑھانا جائز رکھا ہے تا کہ تفسیری اشکالات کوحل کیا جا سکے لہٰذا جو شخص متواتر قراءات کو چھوڑ کر شاذ قراء تیں پڑھے بلاشبہ وہ فتنہ میں مبتلاہے، اس کی نماز ہرگز صحیح نہیں اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کی نماز بھی صحیح نہیں ، ہر وہ قراءت جس کی سند صحیح نہ ہو اور وہ مصاحف عثمانیہ کے رسم کے بھی خلاف ہو، وہ قراءت قراءۃ شاذہ کے حکم میں ہوگی، جیسے حضرت ابی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ کی بعض قراء تیں ۔