کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 502
یقیناً قراء سبعہ اور ثلاثہ کی قراءات قطعی الصحۃ قراء تیں ہیں اور منجملہ احرف سبعہ کے ہیں :
یہ قراءات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک برابر متواتر ہیں نہ کہ وہ صر ف آئمہ قراءات تک متواتر ہیں ، قراءات میں اجتہاد کا کوئی مجال نہیں بلکہ وہ توقیفی اور سماعی ہیں علماء سلف وخلف کا ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ قبول قراءات کو قوت سند پر موقوف کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احرف سبعہ سمیت قرآن مجید کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے، پھر صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کے جم غفیر نے اور اسی طرح ہمارے اس زمانہ تک ہر زمانہ کے بے شمار لوگ مسلسل اور برابر اسے حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ۔[الاحرف السبعۃ ومنزلۃ القراءات :ص۳۵۸تا۳۶۶]
اسلام کے ان روشن ستاروں کی روشنی میں ہم نے یہ وضاحت کے ساتھ جان لیاہے کہ قراءات عشرہ، سبعہ احرف کا حصہ ہیں ان کی اسناد متصل اور صحیح ہیں تمام سلسلہ ہائے اسناد، ثقہ راویوں پر مشتمل ہے ہم ان کو قرآن سمجھتے ہیں اور قرآن مجید کا کوئی حصہ ایسا نہیں کہ جس کا کوئی انکار کر سکے۔ بقول ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک حرف کا منکر گویا پورے قرآن کا انکار کرتا ہے۔
یہ وہ آئمہ دین ہیں جو دن بھر رات اسلام میں غوطہ زن رہے اور ساری عمر ایسے قیمتی مسائل نکال کر امت کی راہنمائی کے لیے پیش کرتے رہے۔ جو ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ قیمتی ہیں ۔
نتیجہ
اگر قراء عشرہ کی مرویات دین نہ ہوتیں تو ہر زمانہ میں اس پر نکیر کرنے والا ایک نہ ایک گروہ ضرور موجود رہتا جبکہ اس بات کا کسی جگہ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
یہ بات درست ہے کہ اجتہادی وفروعی مسائل میں لوگوں کو اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ مگر قراءات کے بارے میں کسی مسلک کا دوسرے سے کوئی اختلاف نہیں ۔ جن آئمہ کے اقوال ابھی ہم نے ذکر کیے ہیں ان میں ہر مسلک کا عالم شامل ہے۔ لہٰذا پوری امت ایک غلط امر پر کیسے جمع ہوسکتی ہے۔ اس طرح کا خیال تو حدیث کے بھی خلاف ہے۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق لا یضرّہم من خذلہم ولا من خالفہم حتی یاتی أمر اللّٰہ وہم علی ذلک‘‘ [صحیح البخاري:کتاب الاعتصام]
’’میری امت میں ایک گروہ یقیناً حق بات پر غالب وقائم رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا تو اس سے ان لوگوں (اہل حق) کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہاں تک کہ اسی حالت پر امر الٰہی ان کا پیغام اجل اور قرب قیامت کا زمانہ آ پہنچے گا۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
’’إن اللّٰہ لا یجمع امتی علی ضلالۃ‘‘ [سنن ترمذی،کتاب الفتن،باب ما جاء فی لزوم جماعۃ]
’’بے شک اللہ تعالیٰ میری پوری امت کو کبھی گمراہی پر متفق الرائے نہ فرمائے گا۔‘‘
لہٰذا اس آخری فرمان میں قرآن مجید اور اس کے متعلقہ علم قراءات کا انکار سوائے فتنہ قرب قیامت وجہل وحمق کے اور کیا ہوسکتا ہے؟اب بحث یہ ہو رہی ہے کہ مختلف ممالک میں مختلف قراءات میں نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ہم کیا گمان رکھیں کہ ان کی نماز صحیح یا باطل؟