کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 5
’’قرآن کوعمدہ آواز سے پڑھا کرو۔‘‘ یہ بے حد جمال آفرین، وجد انگیز اور بلیغ جملہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زبان سے نکلا۔قرآن مجید جو جمال وجلال کا حسین پیکر ہے،اس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ اسے اپنی آوازوں سے آراستہ کرو۔ قرآن مجید کے الوہی جلال سے جب صوت البشر کا جمال ملتا ہے تو اس کاتاثر اور ابلاغ آسمانوں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔ قرآن مجید کی خوبصورت آواز میں تلاوت نہ صرف پڑھنے والے کے قلب پر جمالیاتی اور ذوقی اثرات مرتب کرتی ہے، بلکہ سننے والے کے لئے بھی یہ صوتی جمال فردوس گوش ہوتاہے۔ خوبصورت قراءت کرنے والے کے تحت الشعور میں یہ بات ہو یا نہ ہو، مگر وہ اپنی آواز سے قرآن مجید کا جمال سامع کے قلب و ذہن پر منتقل کررہا ہوتا ہے۔ حضرت صادق مصدوق ارواحنا فداہ و صلاۃ اللّٰہ علیہ کا دوسرا ارشاد بھی حرزِ جان بنانے کے لائق ہے، فرمایا:((لیس منا من لم یتغنّ بالقرآن)) [صحیح البخاري:۷۵۲۷] ’’وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے جوقرآن پڑھنے میں تغنی سے کام نہ لے۔‘‘ وہ ذات اقدس جس پر قرآن مجید نازل ہوا، قرآن کے صوتی جمال سے کس قدر حظ اٹھاتی تھی، اس کا اندازہ بعض روایات سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’رات میں تمہاری تلاوت قرآن سن رہا تھا، تمہیں تولحن داؤدی عطا ہواہے۔‘‘ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا(کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں ) تو میں اور عمدگی سے پڑھتا۔‘‘ [صحیح ابن حبان:۷۱۵۳] قرآن مجید میں جہاں جنتیوں کے لئے دیگر برکات وانعامات کاذکر ہے وہاں اس کے صوتی جمال کی نعمت کا ذکربھی ملتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے:ارشاد ربانی ہے۔ ﴿ادْخُلُو الجَنَّۃَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُونَ﴾ [الزخرف:۷۰] ’’تم اور تمہارے ازواج جنت میں داخل ہوجاؤ جہاں تمہیں نغمے سنائے جائیں گے۔‘‘ جنت میں جہاں باغ و بہار، روانی انہار، شادابی اشجار، لؤلؤو مرجان اور حور و قصور ہوں گے وہاں مسرور کن پاکیزہ نغمے بھی فردوس گوش ہوں گے۔کیا بعید ہے کہ تحبرون سے مراد قرآن مجید کے صوتی جمال سے تواضع مراد ہو کہ اس دنیامیں جن خوش بخت اَرواح نے قرآن کے حسن و جمال کو اپنی غذا بنا لیاہے وہ کسی اور نغمے کے طالب کیونکر ہوسکتے ہیں ؟ تلاوت قرآن سے اہل ایمان اور اصحاب علم پر جو تاثر وارد ہوتاہے خود قرآن مجید نے اس کاذکر درج ذیل آیت میں کیاہے: ﴿تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَونَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہ ﴾[الزمر:۲۳] ’’ اس(قرآن) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کے قلوب و اجسام اللہ کے ذکر کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔‘‘ سورۃ بنی اسرائیل میں یوں ارشاد ہوتاہے: ﴿اِنَّ الَّذِینَ اُوتُواالعِلْمَ مِنْ قَبْلِہِ اِذَا یُتْلٰی عَلَیہِمْ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا٭ وَیَقُولُونَ سُبْحٰنَ رَبَّنَا اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا٭ وَیَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوعًا﴾[بنی إسرائیل:۱۰۷۔۱۰۹]