کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 499
’’والمعروف أنہا ما وراء السبع،والصواب ما وراء العشر وہی ثلاثۃ آخر،یعقوب، خلف،أبوجعفر، یزید بن القعقاع،فالقول بان ہذہ الثلاثۃ غیر متواترۃ ضعیف جدا‘‘ ’’معروف یہ ہے کہ قراءات سبعہ کے علاوہ باقی سب شاذہ ہیں ۔ حالانکہ یہ درست نہیں ، جس نے کہا کہ یعقوب، خلف اور ابوجعفر مدنی کی قرا ء ات غیر متواتر ہیں اس کی بات نہایت کمزور ہے۔‘‘ امام زرکشی رحمہ اللہ کا تیسرا قول: إن القراءات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ وقد انعقد الاجماع علی صحۃ القراءات القراء السبعۃ وأنہا سنۃ متبعۃ ولا مجال للاجتہاد فیہا وإنما کان کذلک لان القراءۃ سنۃ مرویۃ عن النبی ولا تکون القراءۃ بغیر ما روی عنہ [البرہان فی علوم القرآن للزرکشی:۱/۳۲۱] ’’یقیناً قراءات توقیفی ہیں اختیاری نہیں یعنی قراء نے اپنی طرف سے گھڑی نہیں ہیں ۔ قراء سبعہ کی قراءات کی سحت پر نیز اس بات پر کہ قراءات سنت متبوعہ ہیں جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ۔ اجماع امت منعقد ہوچکا ہے۔ قراءات سنت ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں اور غیر مقبول وجوہ کی تلاوت جائز نہیں ۔‘‘ امام زرکشی رحمہ اللہ کا چوتھا قول: ’’القراءات التی قرأہا القراء السبعۃ فانہا کلہا صحت عن رسول اللّٰہ وہو الذی جمع علیہ عثمان المصحف‘‘ [البرہان/۲۲۷] ’’ یہ قراءات جن کو قراء سبعہ نے روایت کیاہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہیں اور انہی پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا مصحف تحریر کروایا۔‘‘ علامہ تفتازانی رحمہ اللہ ’’إن القراءات السبع المتواترۃ لا یحل الطعن فیہا بل ینبغی أن یضیّف بہا قول من یخالفہ ویجعل ذلک شاہدا علی وقوعہ [شرح الشاطبیہ علی القراءات السبعۃ، ملاعلی قاری:ص۵۹] ’’قراءات سبعہ متواترہ ہیں ان پر اعتراض کرنا جائز نہیں مناسب یہ ہے کہ ان کے ذریعہ مخالف کے قول کی تضعیف وتردید کی جائے اور قراءات کو نحو کے قاعدہ شاذہ کے وقوع وجواز کا شاہد ومستدل قرار دیا جائے۔‘‘ امام ابن صلاح رحمہ اللہ ’’یشترط ان یکون المقرؤ قد تواتر نقلہ عن رسول اللّٰہ قرآنا، واستفاض نقلہ کذلک تلقتہ الامۃ بالقبول کہذہ القراءات السبع لان المعتبر فی ذلک الیقین والقطع‘‘ [فتاوٰی ابن صلاح:۱/۲۳۲] ’’جس قراءات کی تلاوت کی جائے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کا قرآن ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر طریقہ پر منقول ہو وہ قراءات ہر زمانہ میں مشہور وشائع رہی ہو اور اس کو امت نے شرف قبولیت بخشا ہو۔ جیسے مروّجہ قراءاتِ سبعہ ہیں ، کیونکہ قراءات میں معتبر وہ شے ہوگی جو قطعیت اور یقین سے ثابت ہو۔‘‘ وضاحت: امام ابن صلاح نے قراء سبعہ کی مرویات کو توذکر کیا ہے، لیکن قراء ثلاثہ کو نہیں اس سے کوئی یہ مطلب اخذ نہ کر لے کہ وہ ان تین قراءات کو صحیح نہ سمجھتے تھے۔چونکہ قراءات عشرہ ہم تک دوحصوں میں پہنچی ہیں اب بھی مدارس میں دو حصوں میں پڑھائی جاتی ہیں ۔ ایک حصہ مرویات قراء سبعہ اور دوسرا قراءات ثلاثہ پر مشتمل ہے۔ امام ابن صلاح