کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 498
اگر وسعت قلوب واذہا ن کے ساتھ ان حدیثوں پر غور کر لیا جائے تو بڑی آسانی سے ہدایت مل سکتی ہے مگر اس کے بعد چند آئمہ کے اقوال اس لیے پیش کیے جارہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلف وخلف میں موجود جلیل القدر علماء نے ان احادیث کو کس طرح سمجھا۔ آیا ان کے اقوال وفتاویٰ جات مذکورہ اَحادیث کے موافق ہیں یامخالف؟ مگر ان اقوال وفتاویٰ کو پیش کرنے سے پہلے قراءات عشرہ کا تابع سبعہ احرف ہونا، منزل من اللہ ہونا اور شروع سے آج تک معمول بہا ہونے پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں ۔ مروجہ قراءات عشرہ کے صحیح الاسناد اور منزل من اللہ ہونے پر بحث اُمت کے پاس اس وقت صحیح سند سے ثابت ہونے والا ذخیرۂ قراءات جو دس قراء(نافع مدنی، ابن کثیرمکی، ابوعمروبصری، ابن عامر شامی، عاصم کوفی، حمزہ کوفی، علی الکسائی کوفی، ابوجعفر مدنی، یعقوب حضرمی، خلف کوفی رحمہم اللہ )سے مروی ہے اسے قراءات متواترہ کا نام دیا گیا ہے۔یہ وہ قر اء ت ہیں جو عرضۂ اخیرہ والی ہیں اس پر بھی الحمد للہ بے شمار دلائل موجود ہیں ۔ یہ دس قراءات ان تین شروط پر پورا اترتی ہیں جو قرا ء ات کے صحیح ہونے کے لیے مقرر کی گئی ہیں وہ ارکان یہ ہیں ۔ صحیح قراءات کی شروط ۱۔ وہ قراءات جو صحیح سند سے ثابت ہو۔ ۲۔ عربیت کے موافق ہو۔ ۳۔ رسم عثمانی کے حقیقتاً یا احتمالاً موافق ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان قراءات کو امت نے کیا سمجھا اور آیا یہ سبعہ احرف میں شامل ہیں ؟ قراءات سبعہ وقر اء ات ثلاثہ منزل من اللہ سبعہ احرف سے ماخوذ ہیں ۱۔ علامہ مکی بن أبی طالب القیسی إن ہذہ القراءات کلہا التی یقرأ بہا الناس الیوم وصحت روایتہا عن الائمۃ إنما ہی جزء من الاحرف السبعۃ التی نزل بہا القرآن [الابانۃ للقیسی:ص۲] ’’یہ سب قراء تیں جنہیں آج لوگ پڑھ رہے ہیں اور آئمہ سے صحیح طور پر ان کی روایت آئی ہے یہ ان احرف سبعہ کا حصہ ہیں جن کے موافق قرآن نازل ہوا۔‘‘ ۲۔امام زرکشی رحمہ اللہ ’’فالقرآن یقرأ بالاحرف السبعۃ،وجمیع القراءات المقطوع بصحتہا ومصدرہا ہو مجموع الاحرف السبعۃ‘‘ [البرہان: ۱/۳۱۸] ’’پس قرآن کو آج بھی احرف سبعہ کے موافق پڑھا جاتا ہے ان تمام قطعی الصحۃ قراء ات(قراءات عشرہ) کا مصدر وماخذ سبعہ احرف ہی کا مجموعہ ہے۔‘‘ امام زرکشی رحمہ اللہ کا دوسرا قول: