کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 496
طرح نہ توآپ بیان کرتے ہیں نہ ہمیں آپ نے کبھی بتایا ہے۔بات بالکل واضح ہے کہ نمازمیں قرآن مجید کے متن کی تلاوت کی جاتی ہے نہ کہ تفسیر یا احکام ومسائل۔ ہشام رضی اللہ عنہ کی نماز کا حکم ۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابیوں کی قراءت سننے کے بعد یہ فرمانا کہ ہشام رضی اللہ عنہ ! جوکچھ تم نے پڑھا ہے وہ وحی ہے اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اے عمر رضی اللہ عنہ ! جوآپ نے تلاوت کر کے سنایا ہے وہ بھی اللہ ہی نے نازل کیا ہے۔چنانچہ ’’ھکذا أنزلت‘‘کے الفاظ نے یہ ثبوت دیا ہے کہ کلمات ِقرآنیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے وہ بھی قرآن ہے، کیونکہ اسے بواسطہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ لہٰذا اگر وحی ایک طرح کا تلفظ سکھائے تب بھی اور تلفظ میں سات طرح کے تغیرات عطا کرکے تب بھی اسے قرآن ہی کا مرتبہ حاصل ہو گا۔لہٰذا یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ جب ’’قراءات کا قرآن ہونا اسی حدیث سے ثابت ہورہا ہے تو کون انہیں نماز میں پڑھنے سے منع کر سکتا ہے۔ ۲۔چونکہ حضرت عمر وہشام رضی اللہ عنہما دونوں اپنے تلفظ میں پائے گئے فرق اور اختلاف کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کے بعد اچھی طرح سمجھ گئے کہ ہم دونوں قرآن کو درست پڑھنے والے ہیں تو اس کے بعد حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو ’’اپنی نماز درست ہونے کا فتویٰ‘‘ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی، نہ توحضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز کو لوٹانے کا فتویٰ مانگا اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم جار ی کیا اور ہشام رضی اللہ عنہ جو عمر رضی اللہ عنہ کے تلفظ کے خلاف سورۃ الفرقان کی قراءت کررہے تھے وہ اپنی مرضی کے ساتھ نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی اِجازت اور پڑھائے ہوئے طریقہ پر تلاوت کر رہے تھے، کیونکہ دونوں صحابیوں نے دوران مخاصمہ یہ کہا تھا کہ ’’مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں پڑھایا جس طرح تم پڑھ رہے ہو۔‘‘ اور ہشام رضی اللہ عنہ کے نماز لوٹانے کا مسئلہ تو تب سامنے آتا تھا کہ اگر وہ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز پڑھ رہے ہوتے یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قراءت کو غلط قراردیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم دین میں ایسا کام کبھی بھی اختیار نہیں کر سکتے جو سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسی جسارت کیسے کر سکتے ہیں ؟ العیاذ باللہ لہٰذا اگر حروف کثیرہ(یعنی مختلف قراءات یا لغات) پڑھنے سے اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نماز درست ہے تو یہ مسئلہ آج بھی اسی طرح قائم ودائم ہے۔آج بھی اگر کوئی قراءات جاننے والا نماز میں پڑھے یا غیر نماز میں توان شاء اللہ اس کے یہ دونوں کام عنداللہ مقبول وماجور ہوں گے۔ حدیث ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عن أبی بن کعب قال کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءۃ أنکرتہا علیہ ثم دخل اٰخر فقرأ قراءۃ سوی قراءۃ صاحبہٖ فلما قضیا الصلوٰۃ دخلنا جمیعاعلی رسول اللّٰہ فقلت إن ہذا قرأ قراءۃ أنکرتہا علیہ ودخل اٰخر فقرأ سوٰی قراءۃ صاحبہٖ فأمرہما رسول اللّٰہ فقرأ فحسّن النبی شانہما فسقط فی نفسی من التکذیب ولا اذ کنت فی الجاہلیۃ فلما رأی رسول اللّٰہ ما قد غشینی ضرب فی صدری ففضت عرقا وکأنما أنظر إلی اللّٰہ عزوجل