کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 493
کے ذرائع موجود ہیں ۔
تواتر طبقہ:
اس قسم کا تواتر آئمہ عشرہ سے قبل تو تمام قراءات کے حا صل رہا، البتہ عصر حاضر میں یہ تواتر صرف متداول چار قراءات اور روایات کو حاصل ہے۔ نیز تواترکی یہ قسم صرف قرآن مجید کے ساتھ خاص ہے۔
تواتر اسنادی
قرآن مجید کے ثبوت میں اسنادی تواتر موجود ہے البتہ ائمہ عشرہ تک ہے۔ اگرچہ اس سے آگے تواتر اسنادی وتواتر عددی موجود نہیں ۔ کیونکہ ائمہ عشرہ سے قبل اختلاط و روایات کا دور دورہ تھا۔
تلقی بالقبول
اس اعتبار سے قرآن قطعی الثبوت طریقہ سے ثابت ہے جسے بعض لوگ تواتر سے تعبیر کرتے ہیں ۔ قراءات عشرہ متواترہ کو جمیع فنون کے ماہرین نے ہر دور میں بالاتفاق قبولیت سے نوازاہے ۔پور ی دنیا، جمیع مدارس اور جمیع اہل علم جو قرآن یا قراءات قرآنیہ کونقل کرنے والے ہیں وہ تمام اس بات پرمتفق ہیں کہ مروجہ قراءات عشرہ قرآن ہیں ۔
الخبر الواحد المحتف بالقرائن المفید للعلم القطعی
چوتھی بات جوہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ایک قراءت صحت سند سے ثابت ہو اور اس میں رسم عثمانی کی موافقت اور لغات عرب کے مطابق شروط بھی پائی جائیں تو ایسی روایت خبر واحدۃ مقرون بالقرائن کے قبیل سے ہو کر علم قطعی کا فائدہ دے گی۔
تواتر الإشتراک
تواتر اسنادی کا تصور چونکہ آئمہ محدثین کے ہاں صرف خیالی تصور ہے جس کی مثال محدثین کے بقول عملاً موجود نہیں او رتصور تواتر بقول حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ بعض متاخر اصولیوں کی طرف سے پیش کردہ ہے جسے صرف خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اصولیوں سے متاثر ہو کر فن حدیث میں پیش کر دیا۔ [التقیید الایضاح،ص۲۲۵،۲۲۶]
چنانچہ علم مصطلح الحدیث میں تواتر کے جس تصور سے محدثین مانوس ہیں وہ تواتر الاشتراک ہی ہے۔ تواتر کے اس تصور کی رو سے جمیع قراءات قرآنیہ حتمی طور پر متواترہ ثابت ہیں۔
ہذا ماعندی واللّٰہ أعلم بالصواب
٭٭٭