کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 492
اسنادی کے بارے میں تو پیچھے واضح ہو چکا ہے کہ محدثین اس کے انکاری ہیں ، انہوں نے زیادہ سے زیادہ اس کی اگر کوئی مثال پیش کی بھی ہے تو وہ صرف ایک حدیث ’’ من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار ‘‘ ہے ۔ بلکہ صحیح بات یہہے کہ یہ حدیث بھی تواتر اسنادی کی تعریف پر پورا نہیں اترتی ، کیونکہ دیگر روایات کی طرح اس روایت کے بھی ہر طبقہ میں کثرت عدد موجود نہیں ۔ بلکہ متعدد اخبار آحاد میں اس حدیث کے مذکورہ الفاظ مشترک طور پر وارد ہوئے ہیں ۔ چنانچہ تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت ان مشترکہ الفاظ کے اتفاق کے ساتھ درجہ یقین کو پہنچتی ہے۔ اس وضاحت کی رو سے یہ روایت بھی تواتر اسنادی کے بجائے تواتر اشتراکی ہی ہے ۔بعض لوگوں نے مکمل روایت میں الفاظ کے اشتراک کی بنا پر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر لفظی اور روایات میں قدر اشتراک کی بناپر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر معنوی کا نام دیا ہے۔ بعض لوگوں نے مذکورہ تصور کی بنا پر اخبار آحاد کی رو سے ثابت ہونے والی پانچ دیگر روایات کو بھی تواتر لفظی قرار دیا ہے جن میں ایک روایت ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ [صحیح بخاری:۴۹۹۱] بھی ہے۔ ان روایات کی تفصیل کے لئے الوجیز فی اصول الفقہ ازڈاکٹر عبد الکریم زیدان کے اردو ترجمہ جامع الاصول از ڈاکٹر احمد حسن، میں بحث سنت کا مطالعہ فرمائیں ۔ اسی طرح متعدد طرق میں مشترکہ طور پر’’ إنما الأعمال بالنیات‘‘ [صحیح البخاری:۱] کے الفاظ موجود ہیں اگرچہ یہ روایت اپنی اصل کے اعتبار سے خبر غریب ہے۔ اسی اشتراکِ الفاظ کے بنا پر بعض حضرات نے اس روایت کو بھی ’’ من کذب علی متعمداً‘‘ کی طرح متواتر لفظی بنایا ہے اور بعض لوگ اس روایت کو متواتر معنوی شمار کرتے ہیں ،کیونکہ اس روایت میں وارد’’ نیت‘‘ کا مضمون مختلف روایات میں آیا ہے جن میں الفاظ کے اختلاف سے قطع نظر نیت کی فرضیت مشترک ہے۔ بعض محدثین تواتر اشتراکی کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ قدر مشترک کا معاملہ کسی مضمون میں بھی ہو سکتا ہے اور متعدد روایات میں ثابت الفاظ میں بھی۔ اس تناظر میں اگر ہم قراءات عشرہ متواترہ صغریٰ وکبریٰ کا جائزہ لیں تو یہ تمام آیاتِ قرآنیہ تواتر الاشتراک فی الفاظ امر الاشتراک فی الآیات کے اعتبار سے متواتر ہیں ۔ مثال سے یہ بات یوں سمجھیں کہ قرآن کے کسی لفظ کو اہل قراءات کے ہاں چھ سے زائد اندازوں سے نہیں پڑھاگیا۔ جبکہ قراءات قرآنیہ متواترہ اس طرق کے ساتھ مروی ہیں ۔ گویا قرآن کریم آج امت کے پاس سبعہ احرف سمیت اسی اسانید کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مجموعہ قراءات اس طرق سے ثابت ہیں تو ۹۵ فیصد متفق علیہ اسی روایات میں مشترک الفاظ کے اتفاق کے ساتھ متواتر لفظی بنے۔ علی ہذا القیاس ،جو کلمہ چھ اندازوں سے پڑھا گیا ہے تو وہ تقریباً تیرہ تیرہ اخبار آحاد میں موجود مشترک الفاظ کی بنا پر متواتر لفظی میں شامل ہوا۔ یاد رہے کہ چھ اندازوں سے جن کلمات کو پڑھاگیا ہے وہ ایک دو ہیں ۔جنہیں پانچ طرح سے پڑھاگیا ہے وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں ۔ چار طرح سے پڑھے جانے والے کلمات مزید کچھ زیادہ ہیں ۔ اکثر کلمات میں دو یا تین طرح ہی سے پڑھنے کا اختلاف مروی ہے۔ الغرض اسی اعتبار سے دیکھیں تو مروجہ قراءات قرآنیہ عشرہ متواترہ میں موجود تمام آیات، کلمات اور سؤر متواتراً ثابت ہیں اور محدثین کے ہاں تواتر سے بالعموم تواتر الإشتراک ہی مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ محدثین کے معیار تواتر پر قرآن بہر حال ثابت ہے۔ المختصر قر آن کریم کے ثبوت میں پانچ طرح کے تواتر او رقطعیت