کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 491
حدیث سے صرف اتنا تعلق رہا کہ اہل علم سے مسائل پوچھتے رہے اورحدیث کے باقی علم کو اہل الحدیث کے سپرد کر کے اپنے دنیاوی امور میں مشغال ہو رہے ۔ اس اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے توقرآن کریم صحابہ ، تابعین وتبع تابعین سے لے کر آج تک ہر دور میں پڑھا جارہا ہے اورمختلف ممالک میں ہمیشہ سے مختلف قراءات رائج رہی ہیں چنانچہ وہ لوگ جو مدارس میں قراءات قرآنیہ کے محافظین ہیں اگر وہ ہر دور میں ہزاروں میں رہے ہیں تو معاشرہ میں انہی قراءات کو پڑھنے والے عوم الناس ہر زمانہ میں لاکھوں ، کروڑوں رہے ہیں ۔ اب مثلاً مدارس میں روایت حفص سینکڑوں لوگ اسانید سے اخذ کر کے آگے نقل کر رہے ہیں جبکہ صرف پاکستانی معاشرہ میں سولہ کروڑ عوام بھی اسی روایت پر اختلاف اتفاقی تعامل سے عمل پیدا ہے یہ مدارس میں پڑھائی جانے والی روایت حفص کا انتہائی قرینہ کہ اس بنیاد پر خبر واحد کو وہی تقویت مل جاتی ہے جو تلقی بالقبول کے ذریعے سے قراءات کو ملی ہے آج اگر امت میں ساری قراء تیں متداول نہیں ہیں تو بھی اسی قسم کا تواتر بڑا فائدہ دہے کیونکہ قراء عشرتک تو اہل فن کے ہاں بھی تواتر اسنادی موجود ہے معاملہ اس کے بعد کا ہے اور قراء عشر کے دور میں تمام سبعہ احرف عوام وخواص میں متداول تھے چنانچہ آئمہ عشر تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تواتر طبقہ موجود ہے۔ غرض یہ کہ قراءات کی صحت کے لئے اس کی سند کا اتصال اور نقل ہونا تمام اَئمہ ،قراء اورفقہاء کے نزدیک ایک مسلمہ رکن اور بنیادی عنصر ہے البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ قراءات کے لئے صرف صحت سند ہی کافی ہے یا تواتر ضروری ہے ۔ اس کے متعلق ابن جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بعض متاخرین نے اس میں تواتر کی شرط لگائی ہے سند کی صحت کو کافی نہیں سمجھا ان کا خیال یہ ہے کہ قرآن تواتر ہی سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘[النشر :۱/۱۳] لیکن ابن جزری رحمہ اللہ نے متاخرین کی اس رائے کو ناپسند کیا ہے لکھتے ہیں : ’’اس میں جو خرابی ہے وہ ظاہر ہے، کیونکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو جائے توپھر باقی دو اَرکان یعنی موافقت رسم مصحف اورعربی قاعدہ کی موافقت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس لیے کہ جواختلافی وجوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق تواتر ثابت ہیں ان کا قبول کرناواجب اور ان کی قرآنیت کا پختہ یقین کرنا لازمی ہے خواہ وہ رسم کے موافق ہو یامخالف اورجب تمام وجوہ میں تواتر کی شرط لگا دیں گے تو بہت سی وہ اختلافی وجوہ ختم ہو جائیں گی جوقراء سبعہ سے ثابت ہیں ۔‘‘[حول القراءات الشاذۃ:۳] واضح رہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ نے حقیقت تواتر یا تصور تواتر کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو قراء ا ت کے ثبوت کے لئے تواترِعددی یاتواتر اسنادی کی شرط لگاتے ہیں ۔پہلے وہ خود بھی اس موقف کے قائل تھے مگر بعد میں جب اس کی خرابی ظاہر ہوئی توانہوں نے اَئمہ سلف کے موقف کو اپنا لیا ۔اس لحاظ سے انہوں نے ان تمام قراءات کے تواتر کومحفوظ کر دیا ہے جو خبر واحدمحتف بالقرائن سے ثابت ہیں اورعلم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ر ہے کہ ثبوت قراءات کا ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے جو تواتر کی ایک مخصوص قسم ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کا ایک ایک کلمہ، ایک ایک آیت او رایک ایک سورت کو بھی تواتر حاصل ہے۔ لیکن یہ تواتر سند وعدد والا تواتر نہیں بلکہ وہ تواتر ہے جسے محدثین ’تواتر‘ کے مطلق نام کے مصداق کے طور پر پہنچانتے وبیان کرتے ہیں ۔ تواتر