کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 490
قراءات متواتر ہ کے ساتھ آمیزش کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بندہوجائے ۔البتہ اس لحاظ سے اسے ایک ضابطہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو قراءت تواترقطعیت)سے ثابت ہو وہ لازماً کسی نہ کسی عربی وجہ کے بھی مطابق ہو گی۔
رکن ثالث
کسی قراءت کے صحیح ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اس کی سند نہ صرف صحیح، متصل ہو بلکہ وہ تواتر(یعنی قطعی الثبوت خبر اور خبر واحدمحتف بالقرائن)سے ثابت ہواور ساتھ اس کو اَئمہ فن کے نزدیک قبولیت عامہ بھی حاصل ہویہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن خبر واحدمحتف بالقرائن سے بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ قوت استدلال میں خبر متواتر کے مترادف ہی ہوتی ہے ،اور علم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہے ،اس لحاظ سے قرآن کے ثبوت اورصحیحین کے ثبوت میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں علم قطعی والی خبر سے حاصل ہوتے ہیں ۔چنانچہ اَئمہ فن ثبوت قراءت کے لئے جب بھی تواتر کا لفظ بولتے ہیں تواس سے مراد یہی ہے کہ وہ قطعی الثبوت خبر سے یا خبر واحد محتف بالقرائن سے منقول ہو،کیونکہ اگر اس تواتر سے تواتر عددی مراد لیا جائے تو پھر پورے قرآن کوثابت کرنا اور بعید از امکان ہو جائے گا۔
اسی وجہ سے علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے بھی منجد المقرئین میں تواتر کی اصل تعداد رواۃ کی بجائے حصولِ علم کو قرار دیا ہے۔پس علماء قرآن کومتواتر کہتے ہیں تو ان کی تواتر سے مراد تعداد رواۃ نہیں ہوتی بلکہ علم یقینی کا حصول ہوتا ہے۔ امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’جان لو!کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھاگیاہے اورہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواتر سے منقول ہے۔‘‘[أصول السرخسی:۲۷۹]
اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جومصحف کے دوگتوں کے درمیان معروف أحرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے۔‘‘ [المستصفی:۱/۸۱]
ان دونوں جلیل المرتبت فقہاء نے قرآن کی تعریف میں قراءات متواترہ کو بھی شامل کیا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قراءات متواترہ کا تواتر،تعداد رواۃ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ایسی سند کی بنیاد پر ہے جو یقینی وقطعی طور پر ثابت ہے۔
اسی طرح تواتر کی طرف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ،امام الحرمین رحمہ اللہ ،اورامام ابن الاثیر رحمہ اللہ وغیر ہ اہل علم نے’’ما أفاد القطع‘‘کے ساتھ اِشارہ کیا ہے۔
ثبوت قراءات کے سلسلہ میِں ایک تواتر وہ ہے جو کہ عام طور پر نہیں پایا جاتا اس لیے عام اہل الحدیث اس سے واقف بھی نہیں ۔ اسے اہل قراءات کی اصطلاحات میں تواتر طبقہ کا نام دیا جاتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن کریم متعبد بالتلاوۃ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خواص میں پڑھا پڑھایا جاتا رہا ، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھایا توصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہر شخص کا تعلق قرآن سے تعلق رہا ، یہی حال تابعین وتبع تابعین میں رہا حتی کہ آج تک امت میں سے ہر آدمی قرآن کو پڑھتا ہے جبکہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے عام لوگوں کا علم