کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 49
جبیر رحمہ اللہ کا سلسلہ جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا تھا۔ دوسرا حسن بصری رحمہ اللہ کا سلسلہ جن کے اساتذہ ابوالعالیہ تھے اور وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ ۴۔ عبداللہ بن عامر رحمہ اللہ ۔یہ اہل شام میں قراءت کے امام مانے گئے۔ ۸ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۱۸ میں وفات پائی۔ بڑے بڑے صحابہ سے قراءت سیکھی تھی۔ ان کے خاص استاذ مغیرہ بن شہاب مخزومی رحمہ اللہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے قراءت کا علم حاصل کیاتھا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کاجو سرکاری نسخہ شام بھیجا گیا تھا اس کے ساتھ یہی مغیرہ بن شہاب رحمہ اللہ تعلیم قراءت پر مامور کرکے بھیجے گئے تھے۔ ۵۔ حمزہ بن حبیب الکوفی رحمہ اللہ ۸۰ ھ میں پیداہوئے اور ۱۵۷ھ میں وفات پائی۔ ان کاخاص سلسلۂ سندعن الاعمش، عن یحییٰ بن وثاب، عن زر بن حبیش، عن علی و عثمان و ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہے۔ اپنے وقت میں یہ کوفہ کے امام اہل قراءت مانے جاتے تھے۔ ۵۔ علی الکسائی رحمہ اللہ ۔ یہ حمزہ کے بعد کوفہ کے امام قراءت مانے گئے۔ یہ بیک وقت نحو کے امام بھی تھے اور قراءت کے امام بھی۔ان کی مجلس میں سینکڑوں آدمی اپنے اپنے مصاحف لے کر بیٹھ جاتے اور یہ قرآن کے ایک ایک لفظ کا صحیح تلفظ، طریق اَداء اور اعراب بتاتے جاتے تھے۔ ۱۸۹ ھ میں وفات پائی۔ ۶۔ عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ ۔کوفہ کے شیخ القراء ،۱۲۷ ھ میں وفات پائی۔ان کے معتبر ترین ذریعہ علم قراءت دو تھے۔ ایک زر بن حبیش رحمہ اللہ جنہوں نے حضرات علی و عثمان و عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے قراءت کا علم حاصل کیا تھا۔ دوسرے عبداللہ بن حبیبالسلمی رحمہ اللہ جنہوں نے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کامعلم قراءت مقرر کیا تھا۔ آج قرآن کاجونسخہ ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ انہی عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ کے مشہور ترین شاگرد حفص رحمہ اللہ [۹۰ھ، ۱۸۰ھ ]کی روایت کے مطابق ہے۔ ان سات اصحاب کے علاوہ مزید جن اَصحاب کی قراء توں نے شہرت حاصل کی وہ یہ ہیں : ٭ ابوجعفر ٭یعقوب ٭ خلف ٭ حسن بصری ٭ ابن محیصن ٭ یحییٰ الیزیدی اور ٭الشنبوذی رحمہم اللہ ان قراء کے زمانے میں سینکڑوں ہزاروں آدمی ایسے موجود تھے جنہیں انہی ذرائع اور سندوں سے یہ قراء تیں پہنچی تھیں جن سے وہ ان کو پہنچی تھیں وہ بھی انہی استادوں کے شاگرد تھے جن کے یہ لوگ شاگرد تھے اور ان سب کے پاس ہر ایک قراءت کے لیے پورا سلسلۂ اسناد موجود تھا جو کسی صحابی کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا تھا۔ اس لیے ان میں سے کسی امام قراءت کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی قراءت کی روایت میں منفرد تھا۔ دراصل ہر ایک کی قراءت کے بکثرت گواہ دنیائے اسلام کے ہر حصے میں پائے جاتے تھے، اسی وجہ سے ان اماموں کی قراء تیں اُمت میں مسلّم مانی گئیں ۔ مختلف قراء توں کو ردّ یا قبول کرنے کے لیے اہل فن کے درمیان جن شرائط پر قریب قریب مکمل اتفاق پایا جاتاہے وہ یہ ہیں :