کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 489
سے کسی ایک کے رسم کے مطابق ہو اور یہ مطابقت حقیقی طور پر بھی ہو سکتی ہے اوراحتمالی وتقدیری طورپر بھی ہوسکتی ہے۔
موافقت حقیقی کی مثال سورۃ توبہ میں ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراءۃ﴿جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ﴾’من‘ کے اضافہ کے ساتھ ہے اور یہ اس مصحف میں ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مکہ کی طرف بھیجا تھا۔
موافقت تقدیری کی مثال سورۃ فاتحہ کی آیت﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾کے لفظ’ملک‘ میں دو قراء تیں ہیں الف کے ساتھ یعنی’مالک‘ اورالف کے بغیر یعنی’مَلِکِ‘ لیکن یہ لفظ تمام مصاحف عثمانیہ میں الف کے بغیر’مَلِکِ‘ لکھا ہوا ہے اب اس میں ’مَلِکِ‘ کی قراءت تورسم عثمانی کے ساتھ واضح اورحقیقی طورپر موافق ہے جبکہ’مٰلِکِ‘ کی قراءۃ تقدیری طورپر موافق ہے۔
رکن ثانی
عربی وجہ کے ساتھ موافقت ہو، مطلب یہ ہے کہ قراءۃ ان قواعد عربیہ کے موافق ہو جو فصیح عربی کلام سے مشتق ہو اور ان ماہر ین علم نحو کی آراء سے مطابقت رکھتی ہو جو اپنے فن میں درجہ امامت پر فائزہیں ۔ مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے مطلقاً موافقتِ عربی کواس سلسلہ میں معیار قراردیاہے جبکہ علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے’ولو بوجہ‘کی قید لگائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی لفظ یا جملے میں نحوی قواعد کے اعتبار سے متعدد وجوہ ہوں توقراءت ان میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہونی چاہیے خواہ وہ وجہ درجہ فصاحت میں کم ہو یا اعلی یاوہ قواعد نحاۃ کے نزدیک متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ۔مثلاً امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراءۃ﴿وَاتَّقُوا اللّٰہ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہِ وَالأَرْحَام﴾میں ’الأرحام‘ جری حالت میں ہے اوریہ کوفیوں کے مذہب کے مطابق ’بہ‘ کی ضمیر مجرور پر عطف ہے یا بصریوں کے مذہب کے مطابق حرف جار کو دوبارہ لوٹایا گیا ہے، لیکن معلوم ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے یا’أرحام‘ کی تعظیم اورصلہ رحمی کی ترغیب دینے کے لئے قسم کی بنا پر زیر دی گئی ہے۔ تو یہاں امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراءۃ میں دونوں وجہیں لغت کے اعتبار سے درست ہیں ۔
حقیقت یہی ہے کہ کسی قراءت کا تواتر(قطعیت) کی موجودگی میں عربی لغت کا کوئی قاعدہ اورقانون کسی قراءت کو رد نہیں کرسکتا۔چنانچہ امام ابوعمرو بصری دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اَئمہ قراء حروفِ قرآن کے سلسلہ میں اس بات پر اعتماد نہیں کرتے کہ وہ لفظ لغوی لحاظ سے عام مستعمل ہے یاعربی قاعدہ کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ حرف نقل وروایت کے اعتبار سے صحیح ترین اورثبوت کے اعلی معیار پر ہو، کیونکہ قراءۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اَئمہ تک کے سلسلہ تواتر(قطعیت)کی اتباع کی جائے گی اور اس کی طرف لوٹنا اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔‘‘
[جامع البیان فی القراءات السبع :ض/۱۷۷/ب،بحوالہ قراءت شاذہ:۱۰۶]
امام ابن جزری رحمہ اللہ نے اس حقیقت کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے کہ
’’تواتر(قطعیت)ہی درحقیقت قراءۃ کی بہت بڑی بنیاد اورایک عظیم رکن ہیں ۔ لغت عربی کے ساتھ موافقت کے سلسلے میں محققین آئمہ کے نزدیک یہی مذہب مختار ہے ۔متعدد قراءات ایسی ہیں جن کا بعض یا اکثر نحویوں نے انکار کیا ہے، لیکن ان کے اس انکار کا اعتبار نہیں کیاگیا ،بلکہ آئمہ سلف نے بالاتفاق ان قراءات کوقبول کیا ہے۔‘‘ [النشر:۱/۱۰]
اس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ وجۂ عربی کے ساتھ مطابقت کی شرط صحت سندیا تواتر(قطعیت) کی طرح ایسا رکن نہیں ہے کہ اس کو معیار قرار دیا جائے بلکہ یہ شرط تومزید حزم واحتیاط کے لئے لگائی گئی ہے تاکہ قراءاتِ شاذہ کی