کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 487
اس کے بالمقابل وہ اہل علم جوعلم قطعی والی روایت ہی کو متواتر کہہ کر بیان کرتے ہیں ان کا اپنا ایک خاص اُسلوب ہے کہ ان کے ہاں ’’الخبر الواحد المحتف بالقرائن‘‘ بھی متواتر ہی کہلائی جائے گی،لیکن مذکورہ دونوں اَقوال باہم متضاد نہیں بلکہ ان میں صرف اِصطلاح کا فرق پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام وہ اہل علم جومتواتر اس روایت کوکہتے ہیں کہ جو علم قطعی کا فائدہ دے وہ بھی متواتر کی پہلی تعریف(یعنی عدد کثیر کے لحاظ سے)کا انکار نہیں کرتے۔جبکہ عام اہل فن دوسری تعریف(یعنی علم قطعی کے لحاظ سے)کا باقاعدہ اقرار تو نہیں کرتے، لیکن اسے حقیقت تواتر میں بھرپور طور پر شامل کرتے ہیں ۔ رہا تواتر کی تعریف میں کسی عدد کا تعین کرنا تویہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کی تعریف میں متواتر روایت اس حیثیت سے زیر بحث ہوتی ہے کہ مقبول روایت میں قوت کا اِضافہ کرتی ہے ورنہ عدد کی تعیین سے تواتر کی تعریف کرنا تواترکی حقیقت سے عدم آشنائی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تواتر کی حقیقت یہ ہے کہ ثبوت روایت میں امکان خطامستحیل قرار پائے۔ برابر ہے کہ عددی کثرت سے ہو(جیسے عددی تواتر کہتے ہیں )یا مقبول صحیح روایت مقرون بالقرائن سے ہو(جیسے قطعی تواتر کہتے ہیں ) عام تعریف تواتر میں فنی تعریف کی توشاید جامعیت پائی جائے، لیکن تصور تواتر یا حقیقت تواتر کی جامعیت بہر حال نہیں کیوں کہ تصور تواتر اس تعریف سے خارج میں بھی موجود ہے لہٰذا اس لحاظ سے تواتر کی تعریف ثانی یعنی’’ما أفاد القطع فہومتواتر‘‘ حقیقت تواتر اورتصور تواتر کی بہترین عکاسی ہے جبکہ پہلی تعریف میں تدوین کے عمومی اَسالیب اور دیگر تصورات کی طرح تواتر کی بھی ایک فنی تعریف مقرر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس فنی تعریف کا قطعی لازمہ یہ نہیں کہ حقیقت تواتر صرف صیغۂ تواتر کی حد تک محدود ہے بلکہ اصل شے تعریف متواتر میں بھی قطعیت ہے چنانچہ اسے ہر حال میں مدنظر رکھنا چاہیے۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ محدثین میں تصور تواتر تو موجود تھا مگر انہوں نے عددی تواتر کے ساتھ اس تصور کو معلق نہیں کیا جیسا کہ عام اہل فن اور بعض اہل اُصول نے کیا ہے وہ اس لیے کہ ذخیرئہ اَحادیث میں مکمل تلاش وبسیار کے بعد ایک ہی ایسی مثال ملتی ہے جو عددی تواتر پر پوری اتر تی ہے۔ اور وہ حدیث((مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) ہے لہٰذا تواتر کو عددی تواتر کے خاص نام جو کہ خاص مفہوم پر دلالت کرتا ہے سے متعلق کرنا بہر صورت ٹھیک نہیں ہے،کیونکہ متقدم محدثین میں تصور تواتر اورحقیقت تواتر توضرور موجود تھا مگر وہ اس خاص نام اور خاص مفہوم میں موجود نہیں تھا جس کو عام اہل فن اوربعض اہل اُصول نے بیان کیا ہے۔ [التقیید والإیضاح:ص۲۲۵،۲۲۶] ثبوتِ قرآن کا ضابطہ ثبوتِ قرآن کی وضاحت سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ علماء اُصول ثبوتِ قرآن کے لیے متواتر کی شرط لگاتے ہیں جبکہ متاخرین علماء واَئمہ فن قراءۃ نے ثبوت قرآن کے لیے صرف صحت سند اور قبولیت عامہ کی شرط عائد کی ہے۔ اگر متواتر سے مراد علماء اصول کے نزدیک اسنادی تواتر ہے تو پھر قرآن کا ثبوت ایسے تواتر سے ممکن نہیں ۔ اگر اس تواتر سے مراد حصولِ علم قطعی ویقینی ہے تو پھر اس اعتبار سے قرآن بعض اوقات خبر واحد المحتف بالقرائن