کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 486
کے اتفاقی تعامل کی صورت میں موجود تھا،الفاظ کا جامہ پہنا کر اِصطلاحات کی زبان میں بیان کردیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کتاب وسنت اور ان کے فہم کے حوالے سے سلف صالحین کی متفقہ تعامل کی روشنی میں جو شے ألم نشرح ہے وہ یہ ہے کہ تحقیق روایت کا اصلی منہج صرف یہی ہے کہ کسی بھی روایت کی صحت وضعف کے مابین امتیاز کرنے کے کچھ ضابطے بروئے کار لاکر قبولیت یا رد کا فیصلہ کر لیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ فن حدیث کا اصل موضوع ،خبر مقبول اور مردود کی بحث ہے جو کہ عموماً خبر واحد کے ضمن میں زیر بحث آتی ہے۔رہی خبر متواتر تو یہ فن حدیث کا مستقل موضوع نہیں ہے۔ الغرض تحقیق روایت کا وہ منہج جو کتاب وسنت اوراسلاف کے مسلمہ تعامل کی روشنی میں سامنے آیا ہے اس کے بنیادی تصورات،راوی کاکردار(اصطلاحاً عدالت)، روایت کو محفوظ طریقے سے نقل کرنے کی صلاحیت(اصطلاحاً ضبط واتقان) اوراتصال سند وغیرہا ہیں ۔کسی روایت کا قطعی ہونا یا کثرتِ رواۃ سے مروی ہونا ہر دو بحث ،فن حدیث میں تحقیق کا اصل معیار نہیں تاہم عمل تحقیق میں اضافی معاون کی حیثیت ضرور رکھتی ہیں ۔مثلاً کسی روایت کے کم از کم ثابت ہونے کے لئے اس کا قبولیت حدیث کے معیار پر اترنا ضروری ہے جس میں روایت کا متواتر ہونا یا قطعی الثبوت ہونا کسی طورپر لازم شرط کے طور پر داخل نہیں ہے۔چنانچہ اس پس منظر میں توکسی روایت کے قبولیت ورد کا اصل معیار تواتر احادیث یاقطعیت وظنیت کو بنانا نہ کتاب وسنت کی روسے صحیح ہے اور نہ ہی سلف صالحین کے تعامل ومسلمہ آراء کے مطابق ہے،جنہیں بعد ازاں فن حدیث کی صورت میں مدوّن کر دیاگیا ہے۔فن حدیث کی رو سے قبولیت ورد کی اصل بحث تقسیم الخبر إلی المتواتر والآحاد کو بنانا ایک غلط رویہ ہے جس کے نہ سلف اول قائل تھے اورنہ ہی اَئمہ تدوین۔البتہ قطعیت کے ثبوت کے قرائن بشمول تواتر اِصطلاحی(تواتر عددی)کے مقبول روایت میں اِضافی طور پر قوت پیدا ضرورکرتی ہیں ۔ اس پہلو سے غور کیا جائے توتواتر کی تعریف میں عدد کی تعیین وعدم تعیین کا موقف ہویا قطعی الثبوت کو متواتر کہنے کا موقف،ہر ایک میں ظاہری اختلاف سے قطع نظر اس بات پر تمام اہل فن متفق ہیں کہ مثلاً ایک غریب صحیح روایت پر رواۃ کی عددی کثرت کی کوئی نسبت بھی ہو(چاہے عزیز یا مشہور ہی کیوں نہ ہو)بہر حال اضافی طور پر ثبوت کی قوت میں ضرور اِضافہ کرتی ہیں ۔ اب رہا مسئلہ تواتر کے حوالے سے اہل فن کے اس اختلاف کا کہ تواتر سے مراد کیا ہے تو اس مسئلے میں ہم یہ ذکر کرنا چاہیں گے کہ تدوین اور علوم کی ضابطہ بندی واِصطلاحات سازی یا بالفاظ دیگر علوم کی فنی اَسالیب میں منتقل کرنے کی نوعیتوں سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اِصطلاحات میں بسا اَوقات اہل فن کے ہاں متعدد اَسالیب ایک ہی تصور کو بیان کرنے کے لئے اختیار کر لئے جاتے ہیں جیساکہ مشہور مقولہ ہے’’لا مناقشۃ فی الإصلاح‘‘ چنانچہ عام اہل فن کا تواتر اسنادی کی فنی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر اتفاق ہے کہ وہی قطعیت جو تواتر سے حاصل ہوتی ہے قرائن سے مقرون خبر واحد سے بھی حاصل ہو جائے گی۔چنانچہ عام کتب فن میں ثبوت روایت میں علم قطعی کے حصول کے دوضابطے موجود ہیں : ۱۔ متواتر ۲۔ خبر واحدمحتف بالقرائن