کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 484
دوسری جگہ لکھتے ہیں : ’’متواتر کی اصطلاح سے اصل مقصود علم یقینی کا حصول ہے جبکہ بعض لوگ متواتر اس کو کہتے ہیں جس کو ایک بہت بڑی تعداد نے نقل کیا ہو اورعلم یقینی صرف ان کی کثرت تعداد کی بنیاد پر حاصل ہو رہاہو ۔ان کا یہ کہنا کہ ایک مخصوص تعداد جب ایک واقعہ میں علم یقین کا فائدہ دیتی ہے تو وہ تعداد ہر واقعہ میں علم یقین کا فائدہ دے گی اور یہ قول ضعیف ہے۔ صحیح قول جمہور علماء کا ہے جس کے مطابق بعض اوقات علم یقینی مخبرین کی تعداد سے حاصل ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات مخبرین کی(اعلی)دینی صفات اور ضبط سے حاصل ہوتاہے اسی طرح بعض اوقات خبر کے ساتھ کچھ ایسے قرائن ملے ہوئے ہوتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں علم یقینی حاصل ہو رہا ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ایک گروہ کو ایک خبر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اوردوسرے کو نہیں ہوتاہے۔‘‘[فتاوی ابن تیمیۃ:۴/۴۷] ٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ان لوگوں کے رد میں جو خبر واحدمختف بالقرائن کو مفید علم یقینی نہیں سمجھتے، فرماتے ہیں : ’’ایسی خبر جس کی اُمت نے تصدیق کی ہو اوراپنے رد عمل کے ذریعے سے اسے قبولیت سے نوازا ہو تو وہ خبر جمہور علماء سلف وخلف کے نزدیک مفیدعلم یقینی ہوتی ہے یہ وہ موقف ہے جسے اُصول فقہ کے جمہور مصنفین نے ذکر کیاہے۔ جیسے احناف میں سے شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ نے،مالکیہ میں قاضی ابویعلی رحمہ اللہ اورابوالخطاب رحمہ اللہ نے، اشاعرہ میں سے اکثر اہل کلام کی بھی یہی رائے ہے،جیسے ابواسحاق اسفرائینی ،ابوبکر بن فورک،ابومنصور تمیمی ابن سمعانی ،ابوہاشم جبائی اورابوعبد اللہ بصری رحمہم اللہ وغیرہ۔ فرماتے ہیں کہ یہ تمام محدثین کامذہب ہے اورابن الصلاح رحمہ اللہ نے المدخل إلی علوم الحدیث میں جوکچھ بیان کیا ہے اس کابھی یہی مفہوم ہے انہوں نے یہ استنباطاً ذکرکیا ہے کہ جس میں مذکورہ اَئمہ ان سے موافقت رکھتے ہیں اوراس میں ان لوگوں نے مخالفت اختیار کی ہے جن کا خیال یہ ہے کہ جمہور،ابن الصلاح رحمہ اللہ کی رائے کے خلاف ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ)ان لوگوں نے مخالفین جیسے ابوبکرباقلانی غزالی رحمہ اللہ ،ابن عقیل رحمہ اللہ وغیرہ کی تصانیف کے علاوہ دوسری کتب سے واقفیت حاصل نہیں کی، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خبر واحد مطلقاً مفید علم نہیں ہے اور اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ مجرد خبر واحد مفید علم نہیں ہے۔(بلکہ وہ خبر واحد جو محتف بالقرائن ہوگی وہ علم یقینی کا فائدہ دے گی)‘‘[النکت:۱/۳۷۴،۳۷۷] ٭ مشہور اُصولی ملا جیون رحمہ اللہ کا بھی یہی نقطہ نظر ہے ۔[نورالأنوار:۳/۲۲۰] ٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نے اس بارے میں تین مذاہب بیان کیے ہیں : ۱۔ خبر واحد مطلق طورپر قطعیت کا فائدہ دیتی ہے اگرچہ اس کوشیخین نے تخریج نہ بھی کیا ہو۔یہ ابن طاہر مقدسی رحمہ اللہ کا نقطہ نظرہے۔ ۲۔ صحیحین میں یا دونوں میں سے کسی ایک میں تخریج کی گئی ہوتوخبر واحد قطعیت کا فائدہ دیتی ہے یہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا نقطہ نظر ہے۔ ۳۔ ایسی خبر واحد جوصحیحین میں ہو ، یا مشہور ہو جس کے کئی طرق ہوں اور وہ سبب علل سے پاک ہو یا وہ خبرجومسلسل بالائمہ ہو،قطعیت کا فائدہ دیتی ہے۔یہ نقطہ نظر ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا ہے۔ [قواعد التحدیث:۸۹]