کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 483
ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں النکت علی ابن الصلاح وغیرہ میں وضاحتاً لکھا ہے کہ اہل الحدیث کے ہاں ایسی خبر متواتر حدیث کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے یابالفاظ دیگر ایسی خبر سے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے متاخرین کی اصطلاحات میں اگرچہ تواتر توقرار نہیں دیا جاتا ،کیونکہ تواتر اسنادی کے لئے کم ازکم چار افراد کا ہر طبقے میں پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود یہ قسم تواتر کی طرح ہے، کیونکہ قرائن سے اسے ایسی قوت بخش دیتے ہیں کہ یہ قطعیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اہل الحدیث کے ہاں یہ قرائن کافی قسم کے ہوتے ہیں جن کی تفصیل کتب مصطلح میں موجود ہے ان میں سے ایک قرینہ جیسے تقریباً تمام فقہی مکاتب فکر کے ہاں مقبولیت حاصل ہے یہ ہے کہ ایسی صحیح روایت جس کی صحت پر جمیع اہل فن کا اتفاق ہو جائے ، جسے اصطلاحات میں تلقی بالقبول کہتے ہیں تو یہ اتفاق اسے قطعیت کے مقام پر فائز کر دیتا ہے صحیحین کو دیگر کئی قرائن کے ساتھ صرف اسی ایک قرینہ نے امت کے ہاں قطعیت کے مقام کر دیا ہے عام طور پر علماء احناف خبر واحد کی بنا پر واجب اور فرض میں ، حرام اور مکروہ تحریمی میں اور تخصیص عام اور تقیید اطلاق وغیرہ کی مباحث میں جمہور سے مختلف ہیں اور اس کی وجہ وہ یہی قرار دیتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہوتی جبکہ خبر متواتر علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے جب کہ ذیل کی سطور میں چند وضاحتیں کی جار ہی ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی تین اَقسام ہیں :
۱۔ وہ خبر جس کی تخریج شیخین نے بالاتفاق کی ہو اوروہ حد تواتر کو نہ پہنچی ہو ۔
۲۔ وہ خبر جو مشہور ہو اور اس کے کئی طرق ہوں اور سب طرق ضعف وعلل سے محفوظ ہوں ۔
۳۔ وہ خبر جسے اَئمہ ،حفاظ اور متقنین نے بیان کیا ہو اوروہ غریب نہ ہو اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ،ایسی خبر جسے اَئمہ حدیث نے بیان کیا ہو اور اُمت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہوا ہو۔تلقی بالقبول کے بارے میں کہتے ہیں کہ بلاشک کسی خبر کے صحیح ہونے پر اجماع اُمت،قرائن محتفہ اور مجرد کثرت ِ طرق سے حاصل ہونے والے علم سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔[نزہۃ النظر :۵۱،النکت:۱/۳۷۸]
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ایسی خبر واحد جس کو’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو علم یقینی کافائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور احناف مالکیہ، شوافع اوراصحاب احمد کا قول ہے۔ اکثر اشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیساکہ استاذ اسفر ائینی رحمہ اللہ اور ابن فورک رحمہ اللہ وغیرہ ہیں ۔ [فتاوی ابن تیمیۃ:۱۸/۴۱]
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا جات کے مدلول میں چار یا اس سے زائد رواۃ کی کثرت بھی شامل ہے جسے عموماً تواتر الإسناد کہتے ہیں اور چار سے کم رواۃ میں پائے جانے والی صفات کی قوت بھی شامل ہے جسے اصطلاح محدثین میں خبر واحد محتف بالقرائن کہتے ہیں ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جھوٹ کا احتمال تین یا اس سے کم رواۃ میں ختم ہو جاتا ہے تو محدثین کے بالاتفاق ایسی شے بھی علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے اس مثال میں ہم صحیح بخاری کے سلسلۃ الذہب کو پیش کر سکتے ہیں سلسلۃ الذہب سے مراد سونے کی وہ سند ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ اپنے استاد احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اور وہ نقل کریں امام شافعی رحمہ اللہ سے اور وہ نقل کریں اپنے استاد امام مالک رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کرین نافع رحمہ اللہ ، یا سالم رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کریں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ۔ اس سند میں موجود تمام افراد کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب حاصل ہیت اور ہر ہر آدمی اپنی ثقاہت میں متعدد ثقہ راویوں کے برابر قوت رکھتا ہے۔