کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 480
ہے۔درست رائے کے مطابق عدد کو متعین کرنا غلط ہے چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’متواتر کے بارے میں صحیح رائے وہی ہے جو جمہور کی ہے اور وہ یہ ہے کہ متواتر کے مفہوم میں عدد کا تعین ٹھیک نہیں ہے بلکہ جب رواۃ کی خبر سے علم حاصل ہو گا تو اس وقت خبر متواتر ہوگی۔‘‘[فتاوی ابن تیمیۃ:۴/۴۰]
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
’’جہاں تک عدد کا تعلق ہے کہ جس سے تواتر حاصل ہو جائے تو بعض لوگوں نے اس کے لئے ایک مخصوص عدد مقرر کیا ہے پھر جنہوں نے مخصوص عدد مقرر کیا ہے ان میں بھی اس عدد کی تعیین میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک چار سے زائد، بعض کے نزدیک بارہ،بعض کے ہاں چالیس،بعض ستر، بعض تین سو اوربعض تین سوتیرہ کے عدد کو تواتر کے حصول کی بنیاد بناتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی کچھ اَقوال ہیں ، لیکن یہ سب اَقوال باطل ہیں کیونکہ یہ دعوی میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں جبکہ صحیح قول یہ ہے کہ تواتر کا کوئی عدد مقرر نہیں ہے(یعنی یہ ایک آدمی سے بھی ہوسکتا ہے اوربعض اوقات ستر سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘[فتاوی ابن تیمیۃ:۴/۴۷]
٭ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ عددکے تعین کے بارے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’فلا معنی لتعیین العدد علی الصحیح‘‘ [نزہۃ النظر:ص۱۰]
’’درست رائے کے مطابق عدد کا تعین بے معنی چیز ہے۔‘‘
٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ولا یعتبر فیہ عدد معین فی الأصح‘‘ [قواعد الحدیث:۱/۱۰۷]
’’صحیح ترین قول کے مطابق تواتر کے مفہوم میں عدد کے تعین کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘
٭ مشہور اُصولی امام رازی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ
’’حق بات یہی ہے کہ مذکورہ گروہ کے نزدیک جو عدد ،علم کا فائدہ دیتا ہے وہ غیر معلوم ہے، کیونکہ جب بھی عدد کا تعین ہوگا تو اس وقت ان(رواۃ کی کثرت) سے جھوٹ کے صدور کا اِمکان عقلاً غیر بعید ہوگا۔‘‘
٭ امیر صنعانی رحمہ اللہ صاحب سبل السلام کابھی یہی نقطہ نظر ہے کہ تواتر میں عدد کو متعین نہیں کیا جائے گا فرماتے ہیں :
’’ولایشترط لہ عدد معین عند المحققین کما عرف فی الأصول‘‘[توضیح الأفکار:۱/۱۹]
’’محققین کے نزدیک تواتر کو عددِ معین سے مشروط نہیں کیا جائے گا جیساکہ اُصول میں معرو ف ہے۔‘‘
٭ ڈاکٹر صبحی صالح مذکورہ موقف کے بارے میں اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ہم نے متواتر کی تعریف میں ’’یحیل العقل والعادۃ تواطئوہم علی الکذب‘‘ کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ ان مخالف نظریات سے بچ سکیں جورواۃ کی تعداد کی تعیین میں بغیر کسی دلیل کے پیش کئے جاتے ہیں ....لہٰذا تواتر حدیث کی تعریف میں راجح قول یہ ہے کہ جماعت کی تعداد مقرر کرنے کی بجائے یہ کہہ دیا جائے کہ عقل ان کے جھوٹ پر جمع ہونے کو محال قرار دیتی ہے جب کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ’’صحیح قول کے مطابق تعداد مقرر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘ [علوم الحدیث:ص۴۷]
۲۔بعض محدثین اور علمائے اُصول نے تقسیم خبر میں خبر واحد اورخبرمتواتر کی مروّج تعریفات سے قطع نظر،قطعیت وظنیت کے لحاظ سے تواتر کا مفہوم متعین کیا ہے ،یعنی اس گروہ نے تواتر کے مفہوم میں’عدد‘ کو بنیاد نہیں بنایا بلکہ ان کے نزدیک عدد کی بنیاد پر روایت کا ظاہری مطالعہ فضول چیز ہے۔ان کے نزدیک تواتر کا مفہوم یہ ہے: