کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 479
صفت پر ہمیشگی رکھے....ابوعبیدہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ’وتیرۃ‘ سے مراد،کسی چیز پر مداومت اختیار کرنا اور یہ تواتر متتابع سے اَخذ شدہ ہے۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’لیس فیہا تواتر أی لیس فیہا توقف ولا فتور‘‘[ایضاً]
’’اس میں تواتر نہیں ہے یعنی اس میں کوئی وقفہ وبندش نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
’’تواتر المطر:إذا تتابع نزولہ‘‘[ایضاً]
’’بارش،تواتر سے برسی:جب اس کا نزول تسلسل کے ساتھ ہو۔‘‘
’تترا‘بھی’وتر‘سے مشتق ہے چنانچہ قرآن کریم میں مرقوم ہے:
﴿ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا﴾ [المؤمنون :۴۴]
’’پھر ہم نے پے درپے اپنے رسولوں کو بھیجا۔‘‘
یعنی ایک رسو ل کے بعد دوسر ار سول بھیجا اور ان کے درمیان کوئی وقفہ نہیں تھا۔
اصطلاحی مفہوم
تواتر یا متواتر کے اصطلاحی مفہوم کے متعلق علمائے حدیث کے دو گروہ ہیں :
۱۔ عام اُصولی محدثین کے نزدیک چونکہ خبر دو اقسام(متواتر وواحد)میں منقسم ہوتی ہے لہٰذا س گروہ کے نزدیک تواتر کا اِصطلاحی مفہوم اس طرح ہوگا۔
’’ہو ما رواہ جمع تحیل العادۃ تواطئوہم علی الکذب،عن مثلہم من أول السند إلی منتہاہ علی أن لا یختل ہذا الجمع فی أی طبقۃ من طبقات السند‘‘[اُصول الحدیث :ص۳۰۱]
’’متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جس کو ایک ایسی جماعت روایت کرتی ہو جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً وعادۃً محال ہو اور وہ جماعت جس دوسری جماعت سے روایت کرتی ہو وہ بھی اسی طرح کی ہو، اور یہ وصف سند کے آغاز سے ،وسط اور آخرمیں موجود رہے۔‘‘
٭ علامہ طیبی رحمہ اللہ خبر متواترکی تعریف اس طرح لکھتے ہیں :
’’ہو خبر بلغت روایتہ فی الکثرۃ مبلغا أحالت العادۃ تواطئوہم علی الکذب‘‘
’’متواتر وہ خبر ہے جس کی روایت کثرت کے اعتبار سے اس درجہ کو پہنچے کہ عادۃً اس کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔‘‘[الخلاصۃ:۳۲]
٭ مشہور اُصولی ملاجیون رحمہ اللہ تواترکا اصطلاحی مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’ہو الخبر الذی رواہ قوم لایحصی عددہم ولا یتوہم تواطئوہم علی الکذب‘‘
’’ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کو اتنے افراد روایت کریں کہ جن کا شمار ناممکن ہو اور جس کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔‘‘
[نور الأنوار بتحقیق الزاہدی:۳/۲۱۵]
تعین عدد میں اختلاف
جن لوگوں نے متواتر کے اِصطلاحی مفہوم میں عدد کو بنیادبنایا ہے ان کے مابین عدد کے تعین میں اختلاف