کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 477
۳۔ امام نافع رحمہ اللہ (ت ۱۶۹ھ) کی قراءت میں ۱۲ غلطیاں بیان کی گئی ہیں ۔ ۴۔ امام کسائی رحمہ اللہ (ت۱۸۰ھ) کی قراءت میں ۱۱ غلطیاں بیان کی گئی ہیں ۔ ۵۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ (ت ۱۲۰ھ) کی قراءت میں ۹ غلطیاں بیان کی گئی ہیں ۔ ۶۔ امام ابی عمرو رحمہ اللہ(ت ۱۵۴ھ) کی قراءت میں ۷ غلطیاں بیان کی گئی ہیں ۔ ۷۔ امام عاصم رحمہ اللہ(ت۱۲۷ھ) کی قراءت میں ۷ غلطیاں بیان کی گئی ہیں ۔ یہ صرف وہ اعتراضات ہیں جو قراءات سبعہ پر وارد کئے گئے ، دیگر قراءات پر کئے جانے والے اعتراضات ان کے علاوہ ہیں ۔ اس ساری گفتگو کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایک بھی قراءت ایسی نہیں جسے تقدس حاصل ہو، تمام لوگ اس کااحترام کریں اور وہ غلطی سے مبّرا ہو۔ ان کے ان اعتراضات کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیاجاسکتا اورنہ ہی ان کی جراء ت پر خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے۔خاص طور پر جب کے یہ تمام اعتراضات بے بنیاد اور بغیر کسی علمی سند کے ہیں ۔ ہرشخص کو قرآن کریم پر اعتماد کرنا ہوگا اور اسے مصدر اوّل بنانا ہوگا۔ اس صورت میں قراءات متواترہ ان اعتراضات سے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ ہم نے اس بحث کے ذریعے معروف نحو کی فطری طور پر حفاظت کی ہے ۔ باوجود اس بات کے کہ ہم نے اس کے بہت سے ابواب میں اصلاح کی کوشش کرتے ہوئے قواعد کو درست کیاہے۔ قواعد کی یہ درستگی محض اس بنیاد پر ہے کہ ہر اصول کی طرح نحو کی اصل بھی قرآن مجید ہے۔ لہٰذا اس کی متواتر قراءات میں جو کچھ موجود ہے وہی نحو کی اساس ہے۔ اگر کہیں معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہ قراءت کی نہیں نحاۃ کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ قاعدہ قرآن مجید کے موافق کیوں نہ بنایا یا علم ہونے کے بعد اس کی اصلاح کیوں نہ کردی۔اب بھی اگر کسی جگہ پر معروف نحوکا قاعدہ قرآنی آیت کے معارض معلوم ہو تو قرآن مجید کی محبت، عظمت، حفاظت، دینی حمیت اور نحو کی خدمت کاطریقہ یہ ہے کہ اس قاعدہ کو تبدیل کرکے قرآن مجیدکے موافق بنا دیا جائے۔ اس سے قرآن مجید کی عظمت بھی برقرار رہے گی اور نحوبھی صحیح اسلوب اختیار کرلے گی۔ جس سے اس کی فصاحت و بلاغت میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ نحو کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ ٭٭٭