کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 473
پڑھا ہے۔ ۲۰۔ آیت کریمہ ﴿فَبِھُدَاہُمُ اقْتَدِہْ قُلْ﴾[الانعام:۹۰] میں وصل کی صورت میں ہاء کو باقی رکھنا جائزنہیں ہے۔ صحیح قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ﴿ فَبِھُدَاہُمُ اقْتَدِہْ قُلْ﴾ میں وصل کی حالت میں ہاء کو باقی رکھنا جائز ہے۔ جیساکہ بہت سی متواتر قراءات میں آیا ہے۔ ۲۱۔ نحوی قاعدہ: اسم فاعل نکرہ، حال یا مستقبل کے معنی میں ہو تو بعد والے کو نصب دیتا ہے اور اگر ماضی کے معنی میں ہو تو پھر یہ عمل نہیں کرتا۔ صحیح قاعدہ: اسم فاعل نکرہ حال یامستقبل کے معنی میں ہو تو بعد والے اسم پرعمل کرتاہے اور اگر ماضی کے معنی میں ہو تو اس کا عمل کرنا قلیل ہے۔ قرآن مجید سے دلیل: ﴿ وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ ﴾ [الکہف:۱۸] یہ متواتر قراءۃ بالکل واضح ہے ۔ کسی قسم کی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔ ۲۲۔ نحوی قاعدہ: (الْوَلَایَۃُ) میں واؤ کو فتح دینا واجب ہے۔ کسرہ دینا جائز نہیں بلکہ لحن ہے۔ صحیح قاعدہ: (الْوَلَایَۃُ) میں واؤ کا فتحہ اکثر ہے اور کسرہ جائز ہے۔ قرآن مجید سے دلیل: ﴿ ھُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ اللّٰہ الْحَقُّ ﴾ واؤ کے کسرہ کے ساتھ قراءۃ متواترہ سے ثابت ہے۔ [النشر في القراءات لابن الجزری : ۲/۲۷۷] ۲۳۔ (ئَ أَنذَرْتَھُمْ) میں دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ صحیح قاعدہ :(ئَ أَنذَرْتَھُمْ) میں دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر دو ہمزوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ جیساکہ دونوں ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔ قرآن مجید سے دلیل:﴿إنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَائٌ عَلَیْہِمْ ئَ أنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ﴾[البقرۃ:۶] قراءۃ متواترہ میں دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر پڑھنا ثابت ہے۔ [غیث النفع ص۲۶، البحر: ۱/۴۷] ۲۴۔ نحوی قاعدہ: دو ہمزوں کو اس طرح جمع کرنا کہ ان کے درمیان الف ہو، جائز نہیں ہے،(ضِیَآء) یا اس جیسے کلمات میں اس طرح پڑھنا مردود ہے۔ صحیح قاعدہ: دو ہمزوں کو اس طرح جمع کرنا کہ ان کے درمیان الف ہو، جائز ہے، کیونکہ صحیح سماع سے یہ ثابت ہے۔ قرآن مجید سے دلیل: ﴿ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا ﴾ [یونس:۵] امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے(ضِیَائً) کو دو ہمزوں کے ساتھ(ضِئَائً) پڑھا ہے۔ [کتاب السبعۃ ، ص۳۲۳] جو کہ متواتر قراءت ہے۔ ۲۵۔ نحوی قاعدہ: جب فعل ماضی ہو اور قد سے پہلے نہ ہو توحال کا جملہ فعلیہ لانا جائزنہیں ہے ۔[الإنصاف مسئلہ نمبر۳۲] صحیح قاعدہ: حال کا جملہ فعلیہ لانا جبکہ فعل ماضی ہو مطلق طور پر جائز ہے۔ قد سے پہلے ہونا اکثر ہے اور قد کے بعد ہونا قلیل ہے۔ قرآن مجید سے دلیل: ﴿ أوْ جَائُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُھْم ﴾ [النساء :۹۰] اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات ہیں جو قراءات متواترہ سے ثابت ہیں ۔