کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 470
قرآن مجید سے دلیل:﴿ إنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصٰرَی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ قراء کا(الصّٰبِئُون) کے رفع پر اجماع ہے، حالانکہ یہ خبر مکمل ہونے سے پہلے آیا ہے۔اس قراءت پر قراء کا اجماع اس قاعدے کی دلیل ہے۔
۴۔ نحوی قاعدہ:(سواء) نصب کے ساتھ کمزور لغت ہے، اصل لغت رفع ہے۔ [الکتاب لسیبویہ: ۱/۲۳۳]
صحیح قاعدہ: کلمہ(سواء) میں رفع اور نصب دونوں لغات ہیں ۔ نصب دینا درست ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ﴿سَوَائً مَّحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ﴾ [الجاثیۃ:۲۱] قراء سبعہ میں سے تین قراء نے اس طرح پڑھا ہے۔ [البحر المحیط: ۸/۴۷، المہذَّب: ۲/۳۵۳، ھدی البریۃ: ص۵۵] قرآن مجید سے اس کی دیگر مثالیں : ﴿الَّذِی جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَائً الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَادِ ﴾[الحج:۲۵] اور ﴿سَوَائً مَحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ﴾ [الجاثیہ: ۲۱] دونوں مقامات پر کلمہ(سواء) منصوب پڑھا گیا ہے۔
۵۔ نحوی قاعدہ: دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔اگر پہلا ساکن حرف مدہ یا لین ہو تو پھر جائز ہے۔ جیسے ﴿اَلضَّآلِّیْنَ﴾اگر پہلا صحیح ساکن حرف ہو تو پھر ممنوع ہے جیسے﴿إذْ تّلَقَّوْنَہٗ﴾ [ النور:۱۵] ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراءت کے مطابق [ملخص من کتاب سیبویہ :۲/۴۰۷]
صحیح قاعدہ: دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ پہلا حرف مدولین ہو یا ساکن صحیح ہو۔ مثلاً ﴿إذ تلقونہ﴾ ابن کثیر کی قراءت میں یہ اور اس کی طرح دیگر مثالیں موجود ہیں۔ قراءت متواترہ میں اکتیس مرتبہ اسی طرح آیا ہے۔ اسے قراء کی اصطلاح میں (تائے بزی) کہتے ہیں ۔
۶۔ نحوی قاعدہ: اگر فاء کے بعد مضارع ہو اور وہ جواب نہ ہو تو اس میں صرف رفع پڑھیں گے۔ [الکتاب:۱/۴۲۳] نصب ضعیف ہے، بلکہ لحن ہے۔[ البحر المحیط:۱/۳۶۵، الدر اللقیط :۱/۳۶۵]
صحیح قاعدہ: جب فاء کے بعد مضارع واقع ہو اور وہ جواب نہ ہو تو اس میں دو وجہیں جائز ہیں ۔رفع اکثر ہے اور نصب قلیل ہے۔ بغیر کسی لحن کے۔
قرآن مجید سے دلیل: ﴿إِنَّمَآ أمْرُہٗ إِذَا اَرَادَ شَیْئًا أنْ یَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾[یٰسٓ:۸۲] قراء میں سے ابن عامر رحمہ اللہ اور کسائی رحمہ اللہ نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ متواتر قراءۃ ہے۔
۷۔ نحوی قاعدہ: دو کلموں میں اس وقت ادغامِ مثلین جائز نہیں جب مدغم سے پہلے صحیح ساکن ہو اور جو قراءت ابو عمرو رحمہ اللہ میں (شَھْر رَّمَضَان) آیا ہے وہ ضعیف ہے: [الاتحاف، ص۱۵۴] بلکہ ممنوع ہے۔ [البحر المحیط:۲/۳۹، الاتحاف، ص۱۵۴، الدرّ اللقیط: ۲/۳۹]
صحیح قاعدہ: دو کلموں میں ادغام مثلین جائز ہے جب پہلے حرف سے پہلے حرف معتل ہو [البحر المحیط:۲/۳۹] یا ساکن صحیح ہو مثلاً(شھر رمضان) جیسا کہ ابو عمرو رحمہ اللہ کی قراءت میں ہے اور وہ محکم متواتر قراءت ہے۔ [المہذب،ص۸۵]
۸۔ نحوی قاعدہ: ایجاب کے بعد استثناء مفرغ لانا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: ایجاب کے بعد استثناء مفرغ لانا جائز ہے۔