کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 47
کرکے اورمنقوط حروف کے اوپر یانیچے ایک سے لے کر تین تک نقطے لگاکر فرق پیدا کیا اور ابوالاسود رحمہ اللہ کے طریقے کو بدل کر اعراب کے لیے نقطوں کے بجائے زیر، زبر، پیش کی وہ حرکات تجویز کیں جو آج مستعمل ہیں ۔ ان دو تاریخی حقیقتوں کونگاہ میں رکھ کر دیکھئے کہ اگر قرآن کی اشاعت کا دار ومدار صرف تحریر پر ہوتا توجس رسم الخط میں اُمت کو یہ کتاب ملی تھی اس کو پڑھنے میں تلفظ اور اعراب ہی کے نہیں متشابہ حروف کے بھی کتنے بے شمار اختلافات ہوگئے ہوتے۔ محض زبان اور اس کے قواعد کی بناپر خود اہل زبان بھی اگر نقطے اور اعراب لگانے بیٹھتے تو قرآن کی ایک ایک سطر میں بیسیوں اختلافات کی گنجائش نکل سکتی تھی اور کسی ذریعہ سے یہ فیصلہ نہ کیا جاسکتاتھا کہ اصل عبارت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی وہ کیا تھی۔ اس کااندازہ آپ خود اس طرح کرسکتے ہیں کہ اُردو زبان کی کوئی عبارت بے نقطہ لکھ کر دس بیس زبان داں اصحاب کے سامنے رکھ دیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے کسی کی قراءت بھی کسی دوسرے کی قراءت کے مطابق نہ ہوگی۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن میں نقطے اور اعراب لگانے کا کام محض لغت اور قواعد زبان کی مہارت کے بل بوتے پرنہیں کیا جاسکتاتھا، کیونکہ اس طرح ایک مصحف نہیں ،بے شمار مصاحف تیار ہوجاتے جن میں الفاظ اور اعراب کے اَن گنت اختلافات ہوتے اور کسی نسخے کے متعلق بھی یہ دعویٰ نہ کیاجاسکتا کہ یہ ٹھیک اس تنزیل کے مطابق ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ اب وہ کیا چیز ہے جس کی بدولت آج دنیابھر میں ہم قرآن کا ایک ہی متفق علیہ متن پارہے ہیں اور جس کی بدولت قراء توں کے اختلافات امکانی وسعتوں تک پھیلنے کے بجائے صرف چند متواتر یامشہور اختلافات تک محدود رہ گئے؟یہ اُسی نعمت کا صدقہ ہے جس کی قدر گھٹانے اورجس پر سے اعتماد اٹھانے کے لیے منکرین حدیث ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں یعنی روایت۔ اوپر جن دو تاریخی حقیقتوں کاذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ ایک تیسری اہم ترین تاریخی حقیقت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی اشاعت ابتداًء تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی تلقین کی صورت میں ہوئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی عبارت کو کاتبانِ وحی سے لکھوا کر محفوظ تو ضرور کرا دیاتھا، لیکن عوام میں اس کے پھیلنے کا اصل ذریعہ یہ تھا کہ لوگ براہِ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن کوسن کر یاد کرتے تھے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے والے آگے دوسروں کوسکھاتے اور حفظ کراتے تھے۔اس طرح قرآن کاصحیح تلفظ اور صحیح اعراب،جو عین تنزیل کے مطابق تھاہزارہا آدمیوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا اور پھر لاکھوں آدمیوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں کی زبانی تعلیم سے حاصل ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک معتدبہ گروہ ایسے اصحاب کاتھاجنہوں نے پوراقرآن لفظ بلفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنااور یاد کیاتھا۔ ہزارہا اصحاب ایسے تھے جو قرآن کے مختلف اجزاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کرچکے تھے اور ایک بہت بڑی تعداد ان صحابیوں کی تھی جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں تو آپ سے صرف بعض اجزاء قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی، مگر آپ کے بعد پورے قرآن کی قراءت لفظ بلفظ اُن اصحاب سے سیکھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سیکھ چکے تھے۔ یہی اصحاب وہ اصل ذریعہ تھے جن کی طرف بعد کی نسل نے قرآن کی صحیح قراء ت(Reading)معلوم کرنے کے لیے رجوع کیا۔ اس قراءت کا حصول محض لکھے ہوئے مصحف سے ممکن نہ تھا۔ یہ چیز صرف اسی طرح حاصل ہوسکتی تھی کہ مصحف مکتوب کو ان جیتے جاگتے مصاحف سے پڑھ کر اس کی اصلی عبارت تک رسائی حاصل کی جائے۔