کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 469
الکافیۃ: ۳/۱۱۷، شرح المفصّل: ۳/۷۸، إبراز المعاني ص۲۸۴] نخعی، قتادہ، الاعثی رحمہم اللہ [البحر المحیط: ۳/۱۵۷] وغیرہ نے بھی اسی قراءت کو اختیار کیا ہے۔ ابوحیان رحمہ اللہ نے امام حمزہ رحمہ اللہ کی اس قراءت کے بارے میں کہا:
’’قراءۃ متواترۃ عن رسول اللّٰہ ! قرأ بھا سلف الأمۃ واتصلت بأکابر قرآء الصحابۃ عثمان وعلي وابن مسعود وزید بن ثابت وأقرأ الصحابۃ أبي بن کعب‘‘[البحر المحیط: ۳/۱۵۷]
’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی متواتر قراءت ہے۔ امت کے اسلاف نے اس کے موافق پڑھا ہے۔ اکابر قراء صحابہ کرام جیسے سیدنا عثمان، علی، ابن مسعود، زید بن ثابت اور صحابہ کے سب سے بڑے قاری سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم نے اس طرح پڑھا ہے۔‘‘
اس واضح تصریح کے بعد ہونا تو چاہئے کہ نحوی قاعدہ کی اصلاح کردی جائے تاکہ وہ قرآنی فصاحت و بلاغت کو اپنے اندر سمو سکے لیکن نحاۃ نے اسے رد کیا، اسے ضعیف قرار دیا۔ [شرح المفصل:۳/۷۸] اور اسے غلط قرار دیتے ہوئے اس کے مطابق قراءت کو حرام قرار دیا ہے۔ [شرح المفصل :۳/۷۸] اسی لیے مبرّد نے کہا: ’’لو أنني صلیت خلف إمام یقرؤھا لقطعت صلاتي‘‘ [درۃ الفواص في أوھام الخصاص للحریری، ص۹۵]
’’اگر میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھوں جو اس طرح(بروایت امام حمزہ رحمہ اللہ ) قراءۃ کرے تو میں نماز توڑ دوں گا۔‘‘
اس قراءت کے بارے میں اتنا شدید رد عمل ظاہر کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ۃ رائج نحو کے خلاف ہے۔ اس میں حرف جر کے اعادہ کے بغیرمجرور پڑھاگیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں اس کے علاوہ بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ مثلاً ﴿ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ [البقرۃ:۲۱۷] لفظ(المسجد) کا عطف(بہ) پر ہے اور حرف جر کے اعادہ کے بغیر اسے جر دیا گیاہے۔ اسی طرح اِرشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرَازِقِیْنَ ﴾ [الحجر:۲۰] اس میں کلمہ(من) کا عطف(لکم) پر ہے اور حرف عطف کے بغیر ہے۔ کلام عرب میں سے قطرب روایت کرتے ہیں ’’ ما فیھا غیرہ وفرسہ‘‘ [البحر المحیط: ۲/۱۴۷، الحجّۃ لابن خالویہ ص۹۴] اتنے واضح دلائل کے بعد ایک ہی نتیجہ نکلتا ے کہ قراءت متواترہ کو صحیح سمجھتے ہوئے بنیاد بنایا جائے اور اس کے مطابق نحوی قاعدے کی اصلاح کردی جائے۔
۲۔ نحوی قاعدہ: نثرکی صورت میں مرکب اضافی کے درمیان فاصلہ لانا جائز نہیں ۔
صحیح قاعدہ: مرکب اضافی میں مفعول بہ کا فاصلہ لانا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ﴿وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ أوْلَادِھِمْ شُرَکَآؤُھُمْ﴾ قراء میں سے امام ابن عامر رحمہ اللہ نے((وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ ....قَتْلُ أَوْلَادَھُمْ شُرَکَآئِھِمْ)) پڑھا ہے۔ جوکہ متواتر قراءت ہے۔قرآن مجید سے اس کی دوسری مثال: مُخْلِفَ وَعْدَہُ رُسُلِہٖ [ ابراہیم:۴۷] جیساکہ بعض اسلاف نے پڑھا ہے اس میں مرکب اضافی میں اسم مفعول کا فاصلہ لایا گیا ہے۔
۳۔ إنَّ کے محل پر خبر مکمل ہونے سے پہلے رفع کا عطف ڈالنا جائز نہیں ہے۔ خبر مکمل ہونے کے بعد اجماعی طور پر جائز ہے۔
صحیح قاعدہ: إن کے محل پر خبر مکمل ہونے کے بعد رفع کا عطف بالاجماع جائز اور خبر مکمل ہونے سے پہلے راجح قول کے مطابق جائز ہے۔