کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 466
مثال کے طور پر آیت کریمہ ﴿یٰأیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أحَلَّ اللّٰہ لَکَ﴾ [ التحریم:۱] ’’اسی طرح لفظ نبی قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر آیا ہے‘‘ میں لفظ ’النبی‘اورآیت کریمہ ﴿أوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃ﴾[البینہ:۷] میں لفظ ’البریۃ‘،امام نافع رحمہ اللہ نے اندونوں کلموں میں ہمزہ کو تحقیق کے ساتھ پڑھا ہے، لیکن سیبویہ رحمہ اللہ نے ان آیات کاتذکرہ کئے بغیر اس قراءۃ پر اس طرح اعتراض کیاہے:
’’وقالوا نبي وبریۃ فألزمھا أھل التحقیق البدل،ولیس کل شيء نحوھما یفعل بہ ذا، إنما یؤخذ بالسمع، وقد بلغنا أن قوما من أھل الحجاز من أھل التحقیق یحققون نبيء،وبریئۃ، وذلک قلیل ردي‘‘ [الکتاب :۲/۱۶۳]
’’اہل تحقیق نے نبی اور بریہ میں بدل کولازم قراردیا ہے اوران جیسی ہر چیز کے ساتھ ایسے نہیں کیا جائے گا،کیونکہ دلیل سماع ہے اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اہل حجاز کے بعض محققین ان دونوں کلموں نبی، اور بریئۃ کو تحقیق کے ساتھ پڑھتے ہیں ، یہ بہت ہی کم اور بے کار ہے۔‘‘
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آیت کی نص ذکر کئے بغیر اس کا رد ہورہاہے۔جو مثال بیان کی گئی ہے وہ پوری طرح آیت کے مطابق ہے۔ اسی لیے ہم اسے معارض خفی کہتے ہیں ۔ اس کی بہت ساری مثالیں الکتاب میں موجود ہیں ۔(تفصیل کے لیے دیکھئے، الکتاب(ھولاء بناتی ھن أطھرلکم) اس آیت میں ’أطھر‘ کی نصب والی قراءۃ کے بارے میں :۱/۳۹۷،(کن فیکون) میں (یکون) کے نصب کے بارے میں ۱/۴۲۳،(إلی بارئکم)میں ہمزہ کے سکون والی قراءۃ کے بارے میں ۲/۲۹۷) اختصار کی خاطر ہم صرف ایک مثال بیان کرتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ، وَأذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ، وَاِذَا الْأرْضُ مُدَّتْ﴾[الانشقاق:۳،۲،۱]
(السماء)کے اِعراب کے بارے میں ذہن فوراً اس بات کی طرف جاتا ہے کہ یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اس کے بعد جملہ(انشقت) اس کی خبر ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں الارض مبتدا اور مدت اس کی خبر ہے۔بعض کبار علماء نے یہی بات کہی ہے(ان میں اخفش رحمہ اللہ ، فراء رحمہ اللہ اور عام کوفی شامل ہیں) جبکہ جمہور نحویوں نے اس فطری اِعراب کا انکار کیاہے اور آیات کی ایسی تاویلیں کی ہیں جن سے آیات کی سلاست باقی نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا:یہاں تقدیر عبارت یوں ہوگی۔ إذا انشقت السماء انشقت۔ وإذا مدت الأرض مدت۔ السماء فعل محذوف کافاعل ہوگا اور الارض محذوف فعل مدت کا نائب فاعل ہوگا۔ نحویوں کی یہ کاوش محض تکلف ہے جو انہوں نے آیاتِ کریمہ کو قواعد نحویہ کے تابع بنانے کے لیے کی ہے۔ نحوی قاعدہ ہے: إذا شرطیہ کی جملہ فعلیہ کی طرف اِضافت واجب ہے۔(تفصیل کے لیے نحو کی اُمہات الکتب دیکھئے خاص طور پر ألفیۃ ابن مالک کی شروح باب الاضافہ)
ابن مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’وألزموا إذا إضافۃ إلی جمل الأفعال کھن إذا اعتلی [الفیہ ابن مالک، باب الاضافہ]‘‘ البتہ ابن مالک رحمہ اللہ کا اس موقف سے رجوع ثابت ہے۔[شرح الاشمونی:۲/۱۹۵، باب الاضافہ، متن التسھیل لابن مالک، ص۱۵۹ تحقیق ڈاکٹر کامل برکات]لیکن پہلی بات کے زبان زد خاص وعام ہونے کے بعد اس رجوع کا کیا فائدہ؟
جب نحاۃ کے پاس یہ آیت اور اس جیسی دوسری مثالیں آئیں جس میں حرف شرط کے فوراً بعد مرفوع اسم آیا تو