کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 465
’’والذی نختارہ في تخریج ھذہ القراءۃ أنھا جاء ت علی لغۃ بعض العرب من إجراء المثنی بالألف دائما،وھی لغۃ لکنانہ،حکی ذلک أبو الخطاب،وبنی الحارث بن کعب وخثعم وزبیر، وأھل تلک الناحیہ،حکی ذلک عنھم الکسائي وبني العنبر وبني الھجیم ومراد وعذرہ۔ وقال أبو زید سمعت من العرب من یقلب کل یاء ینفتح ماقبلھا ألفاً‘‘ [البحر المحیط:۶/۲۵۵]
’’اس قراءۃ کی تخریج کرتے ہوئے ہم نے جس بات کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض عرب کی لغت میں تثنیہ کو ہمیشہ الف کے ساتھ ہی استعمال کیا گیا ہے اور یہ کنانہ کی لغت ہے جسے ابوالخطاب رحمہ اللہ نے بیان کیاہے۔ بنی حارث بن کعب، خثعم، ز بیر رضی اللہ عنہم اور اس علاقہ کے لوگوں سے یہ لغت کسائی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ بنی عنبر، بنیھجیم، مراد اورعذرہ کی بھی یہی لغت ہے۔ ابوزید رحمہ اللہ نے کہا میں نے بعض عرب کو سنا ہے وہ ہر یاء ماقبل مفتوح کو الف سے بدل دیتے ہیں ۔‘‘
امام جاربردی رحمہ اللہ نے کہا:
’’إن للحارث بن کعب و خثعما و زبیدا و قبائل من الیمن یجعلون ألف الاثنین فی الرّفع والنصب والخفض علی لفظ واحد ‘‘ [شرح الجاربردی علی شافیۃ لابن الحاجب:۱/۲۷۷]
’’حارث بن کعب، خثعم رضی اللہ عنہم ، زبیدا اور یمن کے کچھ قبائل تثنیہ کے الف کو رفعی، نصبی اور جری تینوں حالتوں میں ایک ہی طرح(الف کے ساتھ) پڑھتے ہیں ۔‘‘
اس سے قراءات سبعہ کے بارے میں نحویوں کے موقف کا اندازہ ہوجاتا ہے وہ دونوں قراء توں کو ہی کاتب کی غلطی قرار دے رہے ہیں تو باقی کیا بچا؟ ہم تو قراءت متواترہ کی صورت میں قرآن مجید سے بہتر اور اَوثق مصدر نہیں جانتے ہیں ۔
اہل علم نے قرآن کریم کے دفاع میں جوکچھ کہہ دیا ہمارے لیے وہی کافی ہے اس میں مزید اِضافے کی ضرورت نہیں ہے۔قرآن مجید کی حفاظت کے بارے میں امام فخر الدین الرازی رحمہ اللہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے:
’’إن المسلمین أجمعوا علی أن ما بین الدفتین کلام اللّٰہ ، وکلام اللّٰہ لایجوز أن یکون لحنا وغلطا‘‘ [مفاتیح الغیب:۶/۶۹]
’’مسلمانوں کااس بات پر اجماع ہے کہ جو کچھ دفتین کے درمیان ہے وہ کلام اللہ ہے اور کلام اللہ لحن اور غلط نہیں ہوسکتا۔‘‘
المعارضۃ الخفیہ
نحویوں کے قراءات پر اعتراض کرنے کی دوسری قسم ’المعارضۃ الخفیہ‘ مخفی اعتراض ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جب نحوی قراءۃ پراعتراض کرناچاہتے ہیں تو اس کے لیے ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو پوری طرح آیت کے مطابق ہوتی ہے لیکن وہ آیت کی نص ذکرنہیں کرتے۔ اسی طرح آیت کا حوالہ دیئے بغیر آیت پر اعتراض کیاجاتاہے۔ جب بات یہاں تک پہنچ جائے تو پھر صراحت اور اشارے میں فرق نہیں رہتا۔
متقدمین نحاۃ میں سے سیبویہ کی کتاب میں مخفی اعتراضات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔