کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 464
نہیں ہے۔ [البحر المحیط :۶/۲۵۵، الشذوذ ، ص۴۲] جب ان کے پاس دوسری قراءۃ یاء کے ساتھ(ھذین) آئی تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا اور اسے بھی کاتب کی غلطی قرار دیا ’’غلط من الکاتب‘‘ [تأویل مشکل القرآن لابن قتیبہ، ص ۳۶] قراء میں سے نافع، ابن عامر، حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ نے نون کے تشدید کے ساتھ(إنّ) اور الف کے ساتھ(ھذان) پڑھاہے۔ [البحرالمحیط:۶/۲۵۵، المھذب، ص۱۴۳، الحجۃ لابن خالویہ، ص۲۱۷،کتاب السبعۃ لابن مجاھد) ابوعمرو بن العلاء رحمہ اللہ نے نون تشدید کے ساتھ(إنّ) اور یاء کے ساتھ(ھذین)،(إن ھذین لسٰحرٰن) پڑھا ہے۔ [المھذب، ص۱۴۳، البحر:۶/۲۵۵) یہ بھی محکم قراءت ہے۔ اسلاف میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حسن بصری، ابن جبیر، الاعمش، النخعی، الجحدری اور ابن عبید رضی اللہ عنہم نے اسی طرح پڑھا ہے۔ [البحر المحیط:۶/۲۵۵] امام حفص رحمہ اللہ نے نون کے سکون کے ساتھ(إنّ) اور الف کے ساتھ(ھذان) پڑھا ہے۔ امام حفص رحمہ اللہ کی اس قراءۃ میں نحویوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابوعمرو رحمہ اللہ کی قراء ت(إن ھذین لسٰحرٰن) متواتر قراءت ہے۔ ہمیں اس سبعہ قراءت کی ایک قراءت کو قبول کرناہے جب کہ نحوی اس کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں ۔ فراء نے یاء والی قراءت کاتعاقب کرتے ہوئے کہا: ’’ولست أجتری علی ذلک‘‘ [معانی القرآن للفراء:۲/۲۹۳] ’’میں اس(قراءۃ) کی جرأت نہیں کرسکتا۔‘‘ زجاج نے اس قراءت کا ردّ کرتے ہوئے کہا: ’’لا أجیز قراءۃ أبی عمرو لأنھا خلاف المصحف‘‘ [البحر المحیط:۶/۲۵۵] ’’میں ابوعمرو رحمہ اللہ کی قراءت کو جائز قرار نہیں دے سکتا کیونکہ یہ مصحف کے خلاف ہے۔‘‘ ان نحویوں کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوعمرو رحمہ اللہ نے سند کے بغیر اپنی طرف سے یہ قراءۃ بنا کر قرآن مجید میں شامل کردی ہے اور ابوعمرو رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ ثقہ، عادل، ضابط اور سنت کی پیروی کرنے والے ہیں ، وہ قرآن مجید کے بارے میں کمی بیشی کرنے والے نہیں ہیں ۔ بعض نحویوں نے جمہور قراء کی قراءت کابھی انکار کیاہے۔ انہوں نے کہا: ’’إنھا لیست من القرآن‘‘یہ قرآن میں سے نہیں ہے۔انہوں نے اس بارے میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب اقوال کاسہارا لیاہے حالانکہ وہ ان اقوال سے بری ہیں ۔ [تفصیل کے لیے دیکھئے :البحر المحیط:۶/۲۵۵)، الشذوذ ص۴۲] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی اس قراءۃ کادفاع کرتے ہوئے ایک مستقل رسالہ ’’الکلام علی قولہ تعالیٰ إن ھذان لسٰحرٰن‘‘ [مجلہ مرکز البحث العلمی والتراث الإسلامی بمکۃ المکرمۃ، العدد الثانی عام ۱۳۹۹ھ] لکھا ہے: جس میں انہوں نے نحویوں کی طرف سے اس قراءۃ کو کاتب کی غلطی، لحن یا خطا قرار دینے کے موقف کا بھرپور رد کیاہے۔(الکلام علی قولہ تعالیٰ ان ھذان لساحران، ص۲۷۰،۲۷۱) اور اس قراءت کو افصح قرار دیاہے۔[کتاب الصاحیی لابن فارس، ص۲۱] اہل عرب کی لغت بھی اس قراءۃ کی تائید کرتی ہے۔ ابوحبان رحمہ اللہ نے اس کی تخریج کرتے ہوئے کہا: