کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 463
ہے: ’’فأما التصریح بالیاء فلیس بقراءۃ ولا یجوز أن تکون قراءۃ ومن صرح بھا فھو لاحن محرف‘‘ [تفسیر الکشاف للزمخشری:۲/۱۴۲) ’’یاء کو صراحت کے ساتھ پڑھنا قراءۃ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا قراءۃ ہونا جائز ہے۔جس نے ایسا کیا وہ غلطی کرنے والا اور تحریف کرنے والا ہے۔‘‘ دیکھئے کس طرح یہ لوگ متواتر قراءات سبعہ میں سے قراءۃ کاانکار کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ تین معروف قراء کی قراءت ہے۔ نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ انکار میں سختی کا انداز اختیارکرتے ہیں ’’ولایجوز أن تکون قراءۃ‘‘ اس موقع پر ابوحیان رحمہ اللہ کی یہ بات یاد آتی ہے: ’’وکیف یکون ذلک لحنا و قد قرأ بہ راس البصریین النحاۃ أبو عمرو، وقاری مکۃ ابن کثیر، وقاری مدینۃ الرسول نافع‘‘ [البحر المحیط:۵/۱۵] ’’یہ لحن کیسے ہوسکتا ہے؟ جبکہ بصرہ کے نحویوں کے سردار ابوعمرو رحمہ اللہ ، مکہ کے قاری ابن کثیر رحمہ اللہ اور مدینۃ الرسول کے قاری نافع رحمہ اللہ نے اس طرح پڑھا ہے۔‘‘ سابقہ گفتگو سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس کلمہ میں دو لغات ہیں ، دونوں ہمزہ تحقیق کے ساتھ اور دوسرا ہمزہ یاء سے بدل کر اور دونوں قراءات متواترہ میں وارد ہوئی ہیں ۔ اس صورت میں ان میں سے کسی کا انکار کرنا یا اسے لحن سے تعبیر کرنا کسی طور پر درست نہیں ہے۔ ہرشخص یہ بات جانتاہے کہ ابن مجاہد نے ان دونوں قراءات کی توثیق کی ہے، فرمایا: ’’اختلفوا فی الھمزتین وإسقاط إحداھما من قولہ(أئمۃ) فقرا ابن کثیر وأبو عمرو ونافع،(أیمہ) بھمز الألف وبعدھا یاء ساکنہ، غیر أن نافعا یختلف عنہ فی ذلک ....وقال القاضی إسماعیل عن قالون ھمزۃ واحدۃ وقرأ عاصم وابن عامر وحمزہ والکسائی(أئمۃ) ھمزتین‘‘ [کتاب السبعۃ، ص۳۱۲] ’’قراء نے(أئمۃ)کے دو ہمزہ پڑھنے اور ایک کو ساقط کرنے کے بارے میں مختلف مؤقف اختیار کئے ہیں ۔ ابن کثیر رحمہ اللہ ، ابوعمرو رحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ نے(أیمہ) ہمزہ کے بعد یائے ساکنہ کے ساتھ پڑھاہے۔ نافع رحمہ اللہ سے دوسری قراءت بھی مروی ہے۔ قاضی اسماعیل رحمہ اللہ نے قالون رحمہ اللہ سے ایک ہمزہ بیان کیاہے۔ عاصم، ابن عامر، حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ نے(أئمہ) دو ہمزوں کے ساتھ پڑھا ہے۔ ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ قرآن مجید مضبوط ترین مصدر ہے۔ جب ہم اس حقیقت کو جانتے ہیں تو قراءۃ متواترہ پر اعتراض اور اسے لحن قرار دینا کس طرح قبول کرسکتے ہیں ۔ محض اس بنیاد پر کہ اس قراءۃ نے قواعد نحویہ کی ایک بات کی مخالفت کی ہے کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ ہم قراءۃ پراعتراض کو تسلیم کرنے کی بجائے کہیں ، قاعدہ نحویہ کی اصلاح کی جائے اور اسے قرآن کے مطابق بنایاجائے۔ اسی طرح دوسری مثال اس آیت کریمہ کی ہے: ﴿إنَّ ھٰذانِ لَسٰحِرٰنِ﴾ [سورہ طہٰ :۶۳] قراءات متواترہ میں یہ آیت کریمہ نون کے تشدید کے ساتھ(إن) اور الف کے ساتھ(ھذان) پڑھا گیاہے۔ بعض نحویوں نے اس قراءۃ پر اعتراض کیابلکہ واضح طور پر اس کاانکار کرتے ہوئے اسے کاتب کی غلطی قرار دیاہے اور کہا یہ قرآن میں سے