کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 461
جائے گا لیکن وہاں علماء کی باتوں میں ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ نظریہ نحو قرآنی کی اساس اورا س کے بنیادی اَرکان اس بحث کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم ایک سوال پیدا کرتے ہیں ۔ کیا نحو قرآنی کا تصور ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو وہ کس حد تک قرآنی نحو سے متفق اور کس حد تک رائج نحو کے خلاف ہے؟ اب ہم اس سوال کامکمل اطمینان کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ ہاں نحو قرآنی ہر اعتبار سے مکمل اور کامل ہے۔ نحو قرآنی اوررائج نحو میں اتفاق اور اختلاف کو درج ذیل تقسیم کے ذریعے واضح کرتے ہیں : ۱۔ وہ قسم جسے نحوی تسلیم کرتے ہیں ، کلام عرب کی نظائر کی طرح ہے۔ وہ اس کی موافقت کرتے ہیں ۔ ۲۔ وہ قسم جسے نحوی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اس کی تاویل کرتے ہیں یاپھر صریح یا مخفی طور پر اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔ ہم ان دونوں قسموں پر بات کریں گے۔اونیٰ سے شک کے بغیر یہ دونوں نحو قرآنی کا حصہ ہیں ۔البتہ دوسری قسم ہماری بحث کا اصل محور ہے۔ اس پر تفصیل سے بات ہوگی۔ اسی میں نحوی اختلاف کرتے ہیں ۔ پہلی قسم پر تو الحمدﷲ تمام ہی اتفاق کرتے ہیں ۔ دوسری قسم جس کے بارے میں بعض نحوی اعتراض کرتے یا ان کی تاویل کرتے ہیں ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ان پر لازم ہے کہ وہ اسے قبول کریں اور اس پر اعتماد کریں ۔ کیونکہ قرآن کریم پر مطلق ایمان اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ اس کے تمام اسالیب اور استعمالات کو قبول کریں ۔ تمام قواعد اور قوانین کو اس کے تابع بنائیں۔نحوکی قرآن کی بنیاد پر تصحیح کریں ، ناکہ نحو کی بنیاد پر قرآن کی تصحیح کی جائے، کیونکہ قرآن کریم مطلق طور پر صحیح ترین ماخذ ہے۔ قواعد نحویہ کو مستنبط کرنے میں دیگر ماخذ کی نسبت قرآن کریم اولیٰ ہے۔ قواعد نحویہ اور آیاتِ قرآنیہ میں اختلاف کی صورت میں نحو قرآنی کی معرفت کے لیے بڑا دقیق پیمانہ ہے۔جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: اس نظریہ کے مشتملات:یہ نظریہ چار عناصر سے تشکیل پاتا ہے۔ ۱۔ بحث کا میدان ۲۔ محور ۳۔ اختلافی مقامات ۴۔ ربط پیدا کرنے والی بنیادیں اس نظریہ میں بحث کا میدان قرآن کریم ہے جو مضبوط ترین مصدر ہے اور اسے قانون سازی میں پہلے نمبرپر ہونا چاہئے۔ اس بحث کا مرکز و محور قواعد نحویہ کا قرآنی آیات سے اختلاف ہے۔ اختلافی مقامات وہ ہیں جہاں پرنحوی قاعدہ قرآنی آیت سے متصادم ہے۔ یہ اختلاف اس نظریہ کی زنجیر کی کڑیاں ہیں ۔ نحویوں کے غوروفکر کے مسالک میں سمجھتاہوں ۔ قراءات متواترہ پر اعتراض کرنے والے نحویوں نے درج ذیل طریقہ اور اسلوب اختیار کیا ہے۔ جب انہوں نے نحو کی طرف توجہ دی توقواعدنحویہ کو ایک طرف رکھا اور قراءاتِ قرآنیہ کو دوسری طرف،پھر انہوں نے قراءات کا جائزہ لیا ان میں سے جو قواعد نحویہ کے موافق تھیں انہیں قبول کیا اور ان پر اعتماد کیا اورجو قواعد کے مخالف تھیں ان پر اعتراض کیا یا اگر وہ تاویل کو قبول کرتی تھیں تو ان کی تاویل کی۔ جو قراءات تاویل قبول نہ کرتی