کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 460
’’ہم بصرہ یا ان کے مخالف نحویوں کی بات تسلیم کرنے والے نہیں ہیں ۔ عربی زبان کے کتنے ہی حکم ہیں جو کوفیوں کے نقل کرنے سے ثابت ہیں جبکہ انہیں بصریوں نے بیان نہیں کیا اور کتنے ہی احکام ہیں جنہیں کوفیوں نے نقل نہیں کیا اور بصریوں کے نقل کرنے سے ثابت ہیں ۔‘‘
امام دمامینی رحمہ اللہ(م۸۲۷ھ) نے کہا:
’’لایکون نقل القراء....أوّل من نقل ناقلي العربیۃ والأشعار والأقوال، فکیف یطعن فیما نقلہ الثقات بأنہ لم یجییء مثلہ؟ ولو نقل ناقلون عن مجہول الحال لقبلوہ، فقبول ھذا أولی‘‘ [المواھب الفتحیۃ:۱/۵۴ نقلا عن اللغہ والنحو، ص۹۷]
’’قول کا نقل کرنا ....عربی اشعار اور اقوال نقل کرنے والوں سے کچھ نہیں ہے۔ ثقہ راویوں کے نقل کرنے میں کس طرح اعتراض کیا جاسکتا ہے؟ محض اس بات پر کہ انہوں نے(نحویوں ) کی مثل بیان نہیں کیا اگر یہ نحوی مجہول الحال کی بات کو قبول کرلیتے ہیں تو ان قراء کی بات کو قبول کرنا اولیٰ ہے۔‘‘
ابن جزری رحمہ اللہ (ت۸۳۳ھ) فرماتے ہیں :
’’کل قراءۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالًا وصح سندھا في القراءۃ الصحیحۃ،لایجوز ردّھا ولا یصحّ إنکارھا‘‘ [النشر:۱/۹]
’’ہرقراءۃ جو عربی کی کسی بھی صورت کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی کے موافق ہو چاہے احتمالا، اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراءۃ صحیحہ ہے۔ اس کا ردّکرنا جائز نہیں اور اس کاانکار کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فکل ما ورد أنہ قرئ بہ جاز الاحتجاج بہ في العربیہ، سواء أکان متواترا، أم آحادا، أم شاذا‘‘ [الاقتراح، ص۴۸]
’’قراءت میں جو کچھ بھی بیان کیاگیا، عربی زبان میں اس سے دلیل پکڑنا جائز ہے، چاہے وہ متواتر ہو، احاد ہو یا شاذ ہو۔‘‘
عصر حاضرمیں بھی اس نظریہ کے حامی بہت سے علماء کرام ہیں ۔ ہم اختصار کے لیے صرف ایک کا حوالہ پیش کرتے ہیں ۔ شیخ رشید رضا بعض آیات کے اعراب میں تفصیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’والقرآن فوق النحو والفقہ والمذاھب کلِّھا فھو أصل الأصول، ما وافقہ فھو مقبول وما خالفہ فھو مردود مرذول وإنما یھمنا ما یقولہ علماء الصحابۃ والتابعین فیہ فھو العون الأکبر لنا علی فھمہ‘‘ [تفسیر المنار عند قولہ تعالیٰ: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ﴾[المائدۃ:۱۰۶]
’’قرآن مجید، نحو، فقہ اور مذاہب تمام سے برتر ہے۔ یہ اصل الاصول ہے۔ جو اس کے موافق ہے وہ مقبول اور جو اس کے مخالف ہے وہ مردود اور ضائع ہے۔ ہمارے لیے علماء، صحابہ اورتابعین کے اقوال اہم ہیں اور قرآن مجید کے سمجھنے میں سب سے بڑے مددگار ہیں ۔‘‘
صدیوں پرمحیط تاریخ کے اوراق میں سے یہ چند ایک نصوص ہیں جو آپ کے سامنے پیش کی ہیں وگرنہ اس بارے میں علماء کے بہت زیادہ اَقوال موجود ہیں ۔ میں نے تو مطبوع کتابوں کا بھی احاطہ نہیں کیا جب کہ ہزاروں مخطوطوں میں بہت سا علم موجود ہے۔بہرحال علماء کے ان اَقوال سے ان کا موقف، احساس اور تصور واضح ہوتا ہے۔ لیکن اس نظریہ کی حقیقت، استنباط کے عناصر اور خصائص کی تفصیل نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان باتوں کو کھول کر بیان کیا