کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 46
جواب:یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراءت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراءت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہوا ہے، حالانکہ فیصلے صادر کرنے سے پہلے یہ لوگ کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو خود بھی غلط فہمی سے بچ جائیں اور دوسروں کوغلط فہمیوں میں مبتلاکرنے کاوبال بھی اپنے سر نہ لیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس رسم الخط میں ابتدائً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی کتابت کرائی تھی اور جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلا مصحف مرتب کرایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جس کی نقل بعد میں شائع کرائی، اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے بلکہ نقطے بھی نہ تھے، کیونکہ اس وقت تک یہ علامات ایجاد نہ ہوئی تھیں ۔اس رسم الخط میں پورے قرآن کی عبارت یوں لکھی گئی تھی: کتاب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر اس طرز تحریر کی عبارتوں کو اہل زبان اٹکل سے پڑھ لیتے تھے اور بہرحال بامعنی بناکر ہی پڑھا کرتے تھے، لیکن جہاں مفہوم کے اعتبار سے متشابہ الفاظ آجاتے ہیں ، یا زبان کے قواعد و محاورہ کی رو سے ایک ہی لفظ کے کئی تلفظ یا اِعراب ممکن ہوتے وہاں خود اہل زبان کو بھی بکثرت اقتباسات پیش آجاتے ہیں اور یہ تعین کرنا مشکل ہوجاتا تھاکہ لکھنے والے کا اصل منشا کیا ہے۔مثلاً ایک فقرہ اگریوں لکھا ہو کہ ربنا بعد بین اسفارنا تو اسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارٍِنَابھی پڑھا جاسکتا تھا اور رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی۔ اسی طرح اگر ایک عبارت یوں لکھی ہو کہ انظر الی العظام کیف ننشزھا تو اسے اُنْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا بھی پڑھاجاسکتا تھا اور کَیْفَ نُنْشِرُھَا بھی۔ یہ اختلافات تو اس رسم الخط کے پڑھنے میں اہل زبان کے درمیان ہوسکتے تھے، لیکن ایک عربی تحریر اگر اسی رسم الخط میں غیر اہل زبان کو پڑھنی پڑ جاتی تو وہ اس میں ایسی سخت غلطیاں کرجاتے جو قائل کے منشا کے بالکل برعکس معنی دیتی تھیں ۔مثلاً ایک دفعہ ایک عجمی نے آیت إنَّ اللّٰہ بَرِیٌٔ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ میں لفظ وَرَسُوْلُہُ کا اعراب ٓوَرَسُوْلِہِ پڑھا جس سے معنی یہ بن گئے کہ ’’اللہ بری الذمہ ہے مشرکین سے اور اپنے رسول سے۔‘‘ معاذ اللّٰہ پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن میں اعراب لگانے کی ضرورت سب سے پہلے بصرے کے گورنر زیاد رحمہ اللہ نے محسوس کی جو ۴۵ھ سے ۵۳ ھ تک وہاں کا گورنر رہا تھا۔ اس نے ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ سے فرمائش کی کہ وہ اعراب کے لیے علامات تجویز کریں اور انہوں نے یہ تجویز کیا کہ مفتح حرف کے اوپر، مکسور حرف کے نیچے اورمضموم حرف کے بیچ میں ایک ایک نقطہ لگا دیا جائے۔اس کے بعد عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ ۶۵ھ تا ۸۶ ھ کے عہد حکومت میں حجاج بن یوسف رحمہ اللہ والی عراق نے دو علماء کو اس کام پرمامور کیا کہ وہ قرآن کے متشابہ حروف میں تمیز کرنے کی کوئی صورت تجویز کریں ۔چنانچہ انہوں نے پہلی مرتبہ عربی زبان کے حروف میں بعض کو منقوط اور بعض کو غیرمنقوط