کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 459
حریری رحمہ اللہ(م۵۱۶ھ)نے قراءات پراعتراض کرنے والے مبرد [تفصیل کے لیے دیکھئے الکامل للمبرد:۲/۷۴۹، شرح المفصل:۳/۷۸، درۃ الغواص، ص۹۵ اور مؤلف کی کتاب الدفاع عن القرآن، ص۶] کا تعاقب کرتے ہوئے کہا: ’’ وھذا من حملۃ سقطاتہ وعظیم ھفواتہ، فإن ھذہ القراءۃ من السّبعۃ المتواترہ وقد في ورطۃ وقع في مثلھا بعض النحاۃ بناء علی أن القراءات السّبع عندھم غیرمتواترۃ وأنہ یجوز أن یقرأ بالرأي،وھو مذھب باطل وخیال فارغ‘‘ [ درۃ الغواص، ص۹۵، بتصرف یسیر] ’’یہ بات اس کی مردود اور بڑی حماقتوں میں سے ہے۔ یہ قراءۃ متواتر سبع قراءات میں سے ہیں ۔ تحقیق وہ اور اس جیسے دوسرے نحوی ہلاکت میں گر گئے ہیں جن کے نزدیک قراءات سبعہ غیر متواتر ہیں اور قرآن مجید رائے کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔ یہ باطل مذہب اور غلط سوچ ہے۔‘‘ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ (م۶۰۶ھ) نے کہا: ’’إذا جوزنا إثبات اللغہ بشعر مجہول فجواز إثباتھا بالقرآن العظیم أولی،وکثیرًا ما تری النحویین متحیّرین فی تقریر الألفاظ الواردۃ فی القرآن،فإذا استشھدوا في تقریرھا ببیت مجہول فرحوا بہ وأنا شدید التعجّب منھم فإنھم إذا جعلوا ورود القرآن دلیلا علی صحتھا کان أولیٰ‘‘ [تفسیرالرازی:۳/۱۹۳،سورۃ النساء] ’’جب ہم مجہول شعر سے لغت ثابت کرتے ہیں تو قرآن کریم کے ساتھ ثابت کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ہم بہت سے نحویوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ قرآنی الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے حیران ہوتے ہیں اور جب مجہول شعر سے استدلال کیا جائے تو اس سے خوش ہوتے ہیں ۔ ہمیں ان کے رویے سے شدید تعجب ہے۔اگر وہ لغت کی صحت کے لیے قرآن کریم کو دلیل بناتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔‘‘ ابن المنیر رحمہ اللہ(م ۶۳۳ھ)نے کہا: ’’ولیس غرضنا تصحیح القراءۃ بقواعد العربیۃ،بل تصحیح قواعد العربیۃ بالقراءۃ‘‘ [الانتصاف علی الکشاف:۱/۴۷۱] ’’ہمارا مقصد قواعد عربیہ کے ساتھ قراءۃ کی نہیں بلکہ قراءۃ کے ذریعے عربی قواعد کی تصحیح کرنا ہے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(م۷۲۸ھ) نے کہا: ’’ولم ینکر أحد من العلماء قراءۃ العشرۃ ولکن من لم یکن عالما بھا أو لم تثبت عندہ ....فلیس لہ أن یقرأ بما لا یعلمہ فإن القراءۃ سنّۃ، یأخذھا الآخر عن الأول ولکن لیس لہ أن ینکر علی من علم ما لم یعلم من ذلک‘‘ [منجد المقرئین، ص۱۲۹] ’’علماء میں سے کسی نے قراءۃ عشرہ کا انکارنہیں کیا ہے۔ اس کاانکار اسی نے کیا ہے جو یاتو ان کا علم نہیں رکھتا یااس کے نزدیک یہ ثابت نہیں ہیں ....تو اسے اس چیز کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے جس کاوہ علم نہیں رکھتا۔ قراءۃ سنت ہے جنہیں بعد والوں نے پہلوں سے لیاہے کسی کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ اس کے عالم کا انکار کرے۔‘‘ ابوحیان رحمہ اللہ(م۷۴۵ھ) نے کہا: ’’ولسنا متعبدین بقول نحاۃ البصرۃ ولا غیرھم ممن خالفھم، فکم حکم ثبت بنقل الکوفیین من کلام العرب لم ینقلہ البصریون، وکم حکم ثبت بنقل البصرین لم ینقلہ الکوفین‘‘ [البحر المحیط: ۳/۱۵۶]