کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 458
خالویہ ص۶۱ پربھی بحث کی ہے]’’تمام لوگوں کا اس پر اجماع ہے کہ جب کوئی لغت قرآن کریم میں آجاتی ہے تو وہ غیرقرآن سے زیادہ فصیح ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
ابوعمرو دانی رحمہ اللہ (م۴۴۴ھ) نے کہا:
’’وأئمۃ القراءۃ لاتعمل من القرآن في شيء علی الأفشی في اللغۃ،والأقیس في العربیۃ، بل علی الأثبت فی الأثر، والأصح فی النقل، والروایۃ إذا ثبتت عنہم لم یردھا قیاس عربیۃ ولا فشو لغۃ،لأن القراءۃ سنۃ متبعۃ،فلزم قبولھا والمصیر إلیھا‘‘
’’آئمہ قراءات قرآن مجید میں مشہور لغت اور عربی میں قیاس کے مطابق عمل نہیں کرتے بلکہ جو اثر ثابت ہو، نقل میں صحیح ہو اور روایت سے ثابت ہو تو اسے اختیار کرتے ہیں اور اسے کسی عربی قیاس یا مشہور لغت کی بنیادپرردّ نہیں کرتے کیونکہ قراءت پیروی کی جانے والی سنت ہے، اسے اختیارکرنا اور قبول کرنا لازم ہے۔‘‘ [منجد المقرئین،ص۲۴۳]
ابن حزم رحمہ اللہ(م۴۵۶ھ)نے قراءات کے بارے میں نحویوں کے مؤقف پرتعجب کرتے ہوئے کہا:
’’لا عجب أعجب ممن أن وجد لامریٔ القیس أو لزھیر أو لحریر أو الحطیئۃ أو الطرماح أو لأعرابی أسدی أو سلمی أو تمیمي أو من سائر أبناء العرب لفظا في شعر أو في نثر جعلہ في اللغہ وقطع بہ ولم یعترض علیہ۔ ثم إذا وجد اللّٰہ تعالیٰ خالق اللغات وأصلھا کلاما لم یلتفت إلیہ ولا جعلہ حجۃ وجعل یصرفہ عن وجھہ ویحرفہ عن موضعہ ویتحیل فی إحالتہ عما أو قعہ اللّٰہ علیہ‘‘ [کتاب الفصل فی الملل والنحل لابن حزم ، ص۲۹]
’’اس سے عجیب تر بات کوئی نہیں ہوسکتی ہے کہ اگر امراؤ القیس، زہیر، جریر، حطیئہ، طرماح یا عرب قبائل میں سے اسد، سلم، تمیم یاپورے اہل عرب میں سے کسی کا لفظ شعر یا نثر کی صورت میں مل جائے تو اسے حتمی لغت بنا لیتے ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور اگر زبانوں کے خالق اور ان کے اصل اللہ تعالیٰ کا کلام مل جائے تو اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے نہ اسے دلیل بناتے ہیں اس سے پھر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی جو حیثیت بنائی ہے، اسے بدل دیتے ہیں ۔‘‘
قشیری رحمہ اللہ(م۴۷۵ھ) نے بعض قراءات پر اعتراض کرنے والے زجاج کا تعاقب کرتے ہوئے کہا:
’’ومثل ھذا الکلام مردود عند َائمۃ الدین لأن القراءات التی قرأ بھا أئمۃ القراء ثبتت عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تواترا یعرفہ أھل الصفۃ،وإذا ثبت شيء عن النبی فمن ردّ ذلک فقد ردّ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واستقبح ما قرأ بہ وھذا مقام محذور،لا نقلِّد فیہ أئمۃ اللغۃ والنحو‘‘ [إبراز المعانی لأبي شامۃ،ص۲۷۵، شرح الشاطبیۃ]
’’آئمہ دین کے نزدیک ایساکلام مردود ہے، کیونکہ آئمہ قراء نے جو قراءات پڑھی ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ہیں ۔جس نے اس بات کو رد کیا تحقیق اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کیا اور آپ کی قراءت کو ناپسند جانا۔ایساکرنا حرام ہے۔اس مسئلہ میں آئمہ نحو اور لغت کی تقلید نہیں کی جائے گی۔‘‘
ایک اور دوسرے مقام پرفرمایا:
’’قال قوم ھذا قبح وھذا محال، لأنہ ثبتت القراءۃ بالتواتر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فھو الفصیح لا القبیح‘‘ [جامع أحکام القرآن للقرطبي:۷/۹۳]
’’ایک قوم نے کہا یہ ناپسند اور محال ہے، کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قراءۃ تواتر کے ساتھ ثابت ہوجائے تو وہی فصیح ہے نا کہ قبیح۔‘‘