کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 457
نحاۃ نے بعض آیات میں بہت زیادہ اختلاف کیا، ان پر مذہبی عصبیت غالب آگئی۔ نحو کے قراءاتِ قرآنیہ سے تعارض کی صورت میں انہوں نے قراءات کاردّ کیا۔ [الکتاب:۱/۲۳۳، طبع بولاق] اور ان کی صفات میں ایسی باتیں کہی جو بہرحال قرآن کریم کے مناسب نہیں ، کیونکہ اس کتاب کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ باطل کسی طرف سے بھی اس میں داخل نہیں ہوسکتا، یہ تو حکیم و حمید ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
ان کٹھن حالات میں فراء نے قرآن کریم کے دفاع کا فریضہ ادا کیا اور کہا ’’إن لغۃ القرآن أفصح أسالیب العربیۃ علی الإطلاق‘‘ [کتاب العربیۃ یوھان نک، ترجمہ ڈاکٹر عبدالحلیم النجار، ص۵، مؤلف کی کتاب سیبـویہ والقراءات، ص۲]ایک دوسرے مقام پر کہا: ’’الکتاب أعرب وأقوی في الحجۃ من الشعر‘‘[معانی القرآن للفراء :۱/۱۴] ’’قرآن مجید دلیل میں شعر سے زیادہ مضبوط ہے۔‘‘
امام فراء رحمہ اللہ اپنی ذکاوت اور تقویٰ میں بلند مقام پر فائز تھے۔ علماء نے آپ کی قابلیت، ذہانت اور نیکی کی گواہی دی ہے۔امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ نے آپ کے بارے میں کہا:’’ما ظننت آدمیا یلد مثلک‘‘ میں نے آپ جیسا آدمی نہیں دیکھا۔[تاریخ بغداد طبع السعادۃ،تہذیب التہذیب للعسقلانی:۱۱/۲۱۲ طبع حیدر آباد]امام محمد رحمہ اللہ نے یہ بات اس وقت کہی جب انہوں نے ایک فقہی مسئلہ نحو سے مستنبط کیا تھا، جب ان سے پوچھا گیا، جو سجدہ سہو میں بھول جائے وہ کیا کرے؟ تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: لاشيء علیہ پوچھا گیا کیوں ؟فرمایا:لأن المصفر لا یصفراس جواب پر امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا :(ما ظنت آدم یا یلد مثلک)
آپ کے بارے میں دوسرے علماء نے کہا: لولا الفراء ما کانت اللغۃ [معجم الادباء:۲۰/۱۱] اگر فراء رحمہ اللہ نہ ہوتا تو لغت بھی نہ ہوتی۔ ولا کانت العربیۃ [شذرات الذھب لابن العماد ۲/۱۹] اور نہ ہی عربی زبان ہوتی، کیونکہ انہوں نے عربی زبان کو حاصل کیا، اس کی تہذیب کی اور اسے ضبط کیا۔ [معجم الادباء:۲۰/۱۱۔ دائرہ معارف القرآن العشرین:۷/۱۳۹، شذرات الذھب:۲/۱۹،طبقات الفراء:۲/۳۷۱] اہل علم نے آپ کو بڑا مقام دیا ہے۔ فراء رحمہ اللہ کے آنے پرسعید بن سالم رحمہ اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: قد جاء کم سید أھل اللغۃ،وسید أھل العربیۃ [معجم الأدباء:۱۱/۲۲۷] ’’تمہارے پاس اہل زبان اور اہل عرب کا سردار آیاہے۔‘‘ علماء نے آپ کو نحویوں کا امیر المومنین قرار دیاہے۔ الفراء أمیرالمومنین في النحو [تہذیب التہذیب :۱۱/۲۱۲ ]
عصر حاضر کے مسلم اور غیر مسلم( تمام نے آپ کی عربی دانی کا اعتراف کیا۔ یورپی مستشرق یوھان نک نے آپ کی تعریف یوں کی :’الفراء العظیم‘(العربیہ مترجم ڈاکٹر عبدالحلیم النجار) ڈاکٹر طہٰ حسین نے کہا کہ تاریخ ادب عربی میں آپ کی نظیر نہیں ۔ آپ تعجب انگیز کمالات کے مالک ہیں ۔ [مقدمۃ إحیاء النحو، طبع سنہ، ۱۹۵۱ء]
قدیم و جدید علماء کی رائے میں اس اہمیت کا مالک فراء وہ پہلا شخص ہے جس نے قرآن کریم کا دفاع کرتے ہوئے قواعد نحویہ پرقرآن کریم کو مقدم ٹھہرایا۔ آپ کے بعد جن علماء نے احساس اور شعور کے ساتھ ان نظریہ کو پروان چڑھایا ان کا مختصراً تذکرہ کرتے ہیں ۔
ابن خالویہ رحمہ اللہ (م۳۷۰ھ) نے کہا: ’’قد أجمع الناس جمیعا إن اللغۃ إذا وردت في القرآن فھي أفصح مما في غیر القرآن،لا خلاف في ذلک‘‘ [ض:۱/۲۵۷ ، اس موضوع پر کتاب الحجۃ لابن