کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 455
دیتی ہے۔ ان علماء کی نیت بُری نہیں ہوتی بلکہ وہ حسن نیت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں ، لیکن مذہبی تعصب انہیں حق سے دور لے جاتاہے۔ یہی بنیادی سبب ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ان پر الحاد، زنادقہ اور اسی قسم کا حکم نہیں لگاسکتے۔
فضیلۃ الشیخ عظیمہ رحمہ اللہ نے یہ متعارض مؤقف سیبویہ رحمہ اللہ کا بیان کیا ہے۔ سیبویہ رحمہ اللہ اپنی کتاب میں کہتے ہیں : ’’القراءۃ لاتخالف لأنھا السنۃ‘‘ [الکتاب:۱/۷۴]’’سنت ہونے کی وجہ سے قراءۃ کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔‘‘
یہ واضح موقف بھی انہیں بعض قراءات کے رد سے نہ روک سکا۔ شیخ عظیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس کی مثالیں مکمل حوالوں کے ساتھ بیان کی ہیں۔ [دراسات لأسلوب القرآن الکریم:۱/۴۹]
سچی بات یہ ہے کہ قراءات کے بارے میں یہ موقف اختیار کرنے میں سیبویہ رحمہ اللہ اکیلے نحوی نہیں ہیں ۔ ان کے ساتھ علماء کی ایک کثیر تعدادکا یہی مؤقف ہے۔ یہ تمام جلیل القدر علماء ہیں ۔ ہم ان کااحترام کرتے ہیں ۔ ہمیں ان کے عقیدے کی سلامتی میں کوئی شک نہیں ۔ ہم ان لوگوں کی تائید نہیں کرتے جو ان علماء کو کفر اور ارتداد کی حالت میں سمجھتے ہیں ۔ [البحر المحیط:۱/۳۶۵] تعارض کی صورت میں ہم ان کی غلطی کو نحوی مذہبی عصبیت کاشاخسانہ سمجھتے ہیں ۔ جنہوں نے پہلے جاہلی شعر سے قواعد بنائے پھر ان قواعد کا ٹوٹنا یا ان کی اصلاح کرنا ان پر گراں گزرتا ہے۔
گذارش
اس بحث سے حسب ذیل اَہداف اور گزارشات پیش کرناچاہتا ہوں :
۱۔ اس حقیقت کو تسلیم کیاجائے کہ تقدیس صرف نصوص قرآنیہ کو حاصل ہے ناکہ قواعد نحویہ کو، اور اس ترتیب کوملحوظ خاطررکھا جائے۔
۲۔ قرآنی شواہد کی روشنی میں قواعد کی درستگی کی جائے۔
۳۔ نحو قرآن کو تمام بلاد اسلامیہ میں عام کرنے کے لیے بھرپور مدد کی جائے۔ اس تعاون کے لیے علمی، دینی اور اجتماعی ہر طرح کے وسائل استعمال کئے جائیں ۔ بالخصوص علمی اور اجتماعی مراکز، زبان کی تعلیم کے ادارے، عربی اور اسلامی تعلیم کے کالجز اور یونیورسٹیاں ، بلا دعربیہ کی یونیورسٹیوں ، دنیابھر میں پھیلے ہوئے تحقیق کے اداروں میں اس فکر کو عام کیاجائے۔اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے مختلف وسائل استعمال کئے جائیں ۔ اسلامی حکومتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کے مختلف درجات میں اس کی تعلیم کا اہتمام کریں ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ علم اَوراق تک محدود ہوجائے گا اور زندگی کی غبار میں دب جائے گا۔
جب میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا تھا تو اس دوران میں نے دیکھا کہ بعض قواعد نحویہ قراءاتِ قرآنی کے خلاف ہیں ۔اس وقت سے یہ فکر میرے سر پر سوار ہے اور میں نے اس موضوع پر کام کرنے کا تہیہ کیا۔ پھر میں نے اپنے بعض دوستوں ، عزیزوں اور رشتہ داروں کو دیکھا کہ ان کی آراء اسی مسئلہ میں متعارض ہیں ۔میں صمیم قلب سے ان کی ہدایت کے لیے دعا گو ہوں اور ان کے بارے میں یہی کہوں گا۔ اللھم اہد قومي فإنھم لایعلمون
میں مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے علماء سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس نظریہ کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیں ۔میں اپنے بڑھاپے اور کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے شاید اس کا حق اَدا نہ کرسکوں لیکن میں نے یہ موضوع سامنے رکھ دیا