کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 454
دین قرآن پر وارد ہونے والے اعتراض کو دور کرتا ہے
دین کے بارے میں یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی تفصیل اور کوشش کی ضرورت نہیں ہے۔جب ہم قراءات متواترہ کے بارے میں اعتراض دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا کرناچاہئے؟ کیا ہم اس طعن کو قبول کرلیں اور اپنی آراء ان کے مطابق بنالیں یا قرآن کریم کا دفاع کرنے کی کوشش کریں ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسلم پر واجب ہے کہ وہ قرآن کریم کا دفاع کرے اور اس بارے میں کسی قسم کی سستی، کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ نہ کرے۔
اگرہم یہ بات فرض کرلیں کہ ہم قرآن مجید کے دفاع سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور قراءات کے بارے میں اعتراضات کو تسلیم کرلیتے ہیں تو اس صورت میں ہم کسی قراءۃ کومنزل من اللہ اور مقدس سمجھیں گے؟ اسی وجہ سے ہم قرآن کریم کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اور اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کی ہے۔
منہج بھی اس اعتراض کو دو رکرتا ہے
ایک انصاف کرنے والا محقق مسلم ہو یا غیرمسلم اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ قرآن مجید پرنحوی اعتراض کو تسلیم نہ کیا جائے۔ منہج اس بات کاتقاضا کرتا ہے کہ قرآن مجید کو سماعی مصادر میں سب سے بلندمقام پررکھا جائے۔ کیونکہ مشرق و مغرب کے انصاف پسند محقق اس بات پر متفق ہیں کہ یہی زمین پر سب سے زیادہ ثقہ نص ہے۔ کسی بھی دوسری نص کو یہ توثیق حاصل نہیں ہے۔
مثال کے طور پر جاہلی شعر کو دیکھئے۔ یہ بات واضح ہے کہ جاہلی شعر عربی زبان میں دلیل کے اعتبار سے اسلامی، اُموی اور عباسی دو رکے شعر سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس کاسبب واضح ہے۔ پوری دنیا سے لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے عربی زبان کی فصاحت کمزور ہوئی لہٰذا جاہلی دور کا شعر اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اسلامی دور کے شعر پر مقدم ہے۔ اس توثیق کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں ۔ جاہلی شعر کی نسبت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں ، اس کے باوجود جاہلی شعر کی حیثیت مسلم ہے۔ اس کے مقابلے میں قرآن مجید کی کیفیت یہ ہے کہ باطل اس کے دائیں ، بائیں ، آگے، پیچھے اور اُوپر نیچے سے نہیں آسکتا۔ اس کے بارے میں شک والی معمولی چیز بھی نہیں ہے۔ یہ حکیم اور حمید ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔
اس منطقی بحث کانتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ قرآن مجید پر وارد ہونے والے کسی اعتراض کو تسلیم نہ کیاجائے۔
بعض شبہات اور ان کا جواب
بعض بڑے بڑے علماء قراءۃ کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ نحوی قاعدہ سے تعارض کی صورت میں اپنے ہی قول کی مخالفت کرتے ہیں ۔
جواب:یہ نحوی علماء قراءۃ کے سنت ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، انہیں مطلق طور پر ان میں کوئی شک نہیں ، لیکن تعارض کی صورت میں وہ بھول جاتے ہیں کہ یہی بنیادی مأخذ ہے۔ قواعد نحویہ سے اتفاق نہ کرنے والی قراءات کی مخالفت شروع کردیتے ہیں ۔اپنے بصری، کوفی وغیرہ نحوی طبقے کے دفاع کی حرص میں قراءت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یہ محض مذہبی تعصب کی وجہ سے ہے۔ جیسے مشہور قول ہے: ’’العصبیۃ تعمی وتصم‘‘ عصبیت اندھا اور بہرہ بنا