کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 453
عربی زبان دنیا کی زبانوں میں سے سب سے اوپر ہے۔ اس کی وسعت، گہرائی اور عظمت کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ یہ قرآن کریم کی زبان ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ عربی گرائمر کاآغاز قرآن مجید کے بعد اس وقت ہوا،جب فصیح عربی زبان میں لوگ غلطیاں کرنے لگے۔ یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ عربی زبان کے قواعد حسب ذیل سماعی مصادر سے اَخذ کئے گئے۔ ۱۔ قرآن کریم ۲۔ حدیث نبوی(ان دقیق شروط کے ساتھ جو علمانے عائد کی ہیں ) [تفصیل کے لیے دیکھئے، قراءات المجمع اللغوی بالقاھرۃ والشروط التي وضعھا لذلک] ۳۔ کلام عرب:شعریا نثر کی صورت میں ۔ عربی زبان کے سماعی مصادر یہی تین ہیں ۔یہاں میں حدیث نبوی کودلیل بنانے کے بارے میں علماء کے اختلاف کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا(اس موضوع کی تفصیل کے لیے دیکھئے: دراسات في العربیۃ وتاریخھا لفضیلۃ الشیخ محمد الخضر حسین، ص۱۶۶، موقف النحاۃ من الاحتجاج بالحدیث الشریف، تألیف الدکتورۃ خدیجۃ الحدیثی) میں یہاں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ان مصادر میں سے قرآن کریم سب سے مقدم ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے مسلم، غیر مسلم ہر ایک نے تسلیم کیاہے۔ قرآن کریم نے اپنے دشمنوں کو بھی قرآن کی فضیلت کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا۔ ایک کہنے والاکہتا ہے: ’’اللہ کی قسم تم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شعر نہیں جانتا نہ کوئی رجز اور قصیدہ مجھ سے زیادہ جانتاہے۔ اللہ کی قسم یہ سب کچھ اس(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قول(قرآن) کے ذرا بھی برابر نہیں ہے۔ اللہ کی قسم اس کا قول شیریں اور یہ ہر ایک سے بڑھ کر خوبصورت ہے، یقیناً یہ بلند ترین روشنی ہے، مشرق بھی اس سے کم تر ہے۔ یہ غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا اور یہ ہر چیز پر حاوی ہے۔‘‘(یہ بات ولید بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہی تھی۔جب اس نے کفر کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سنی تھی۔ اس طرح کی بعض دیگر روایات بھی ہیں جو مختلف مراجع میں موجود ہیں ۔ [أسباب النزول للسیوطی ، ص۲۲۳، تفسیرالقرطبی:۸ /۶۸۶۵، الروض الأنف، شرح سیرۃ ابن ہشام للإمام عبدالرحمن السھیلی ج۳، ص۶۱] ولید رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب نہ تو وہ مسلمان ہوا تھا اور نہ ہی اس نے ایمان کی حلاوت چکھی تھی بلکہ اس کے حالات سے معلوم ہے کہ وہ کفر پرفوت ہوا۔لیکن انصاف کے کسی لمحے میں یہ سچ اس کی زبان سے جاری ہوگیا۔ جب ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم مطلق طور پر تمام مصادر میں سب سے اوثق ہے اور دوسرے مصادر کی طرح اس سے بھی نحو اخذ کی جاتی ہے تو ایک محقق کے لیے ضروری ہوجاتاہے کہ وہ نحو کو قرآن کے تابع کرے نہ کہ قرآن کو نحو کے تابع۔ جیساکہ ہر صادق ایمان والے مسلمان پر لازم ہے کہ وہ کتاب اللہ کے بارے میں غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قراءات متواترہ سے ہرطعن کو دور کرے اور اس کی حفاظت کرے۔عجیب بات یہ ہے کہ نص قرآنی پر وارد ہونے والے اعتراضات تمام قراءات پر مشتمل ہیں ۔ قراءات متواترہ میں سے کوئی بھی قراءت ایسی نہیں جو نحویوں کی طعن اور جرح سے محفوظ ہو۔ کیا یہ بات دین اور منہج کے اعتبار سے درست ہے؟ ہر گز درست نہیں ہے۔کیونکہ دین قرآن کی حفاظت اور منہج اس کادفاع کرتا ہے۔