کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 451
ہوگی۔ نحوی قاعدہ وضع کرنے میں قرآن کریم کو مصدر اوّل بنایا جائے گا اور اسے سماع کے دیگر تمام مصادرپر مقدم رکھا جائے گا۔خاص طور پر شعر کے مصدر سے، جس سے زمانہ قدیم سے نحاۃ استدلال کرتے رہے، اسے سب سے زیادہ استعمال کیا،یہاں تک کہ یہ رائج نحو میں پہلے نمبرپر آگیا۔ یہی سے خرابی پیدا ہوئی۔ اسی لیے اس کی اصلاح کرنا واجب ہوگیا اور اس کی صورت یہ ہے کہ سماع کے مصادر میں قرآن کریم کو صحیح جگہ پر رکھا جائے۔اسے شعر پر مقدم کیاجائے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نحوی قاعدہ مستنبط کرتے وقت قرآن کریم کو پہلے نمبر پر رکھا جائے گا اور شعر کا مقام اس کے بعد آئے گا۔ اس تقدیم و تاخیرکا فائدہ اختلاف کے وقت ظاہر ہوگا یعنی جب قرآن کریم سے مستنبط شدہ قاعدہ شعر سے مستنبط ہونے والے قاعدے کے خلاف ہوگا تو اس صورت میں ہم پر لازم ہے کہ ہم عربی شعر پر نص قرآنی کومقدم ٹھہرائیں ۔ یہی وہ کوشش ہے جس کے لیے یہ مضمون لکھا گیاہے اورمیں نہیں سمجھتا کہ قرآن کریم کو دوسری نصوص پر مقدم رکھنے کے بارے میں اس موقف سے کوئی اختلاف رکھتا ہو۔
اَ ہداف
اس بحث کے متعدد مقاصدہیں جن میں سے میری نظر میں درج ذیل اہم ہیں :
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی خدمت کی جائے تاکہ ہر قسم کے قاعدے اور ضابطے کے لیے یہ مصدر اوّل بن جائے۔ انہی میں سے نحو کے قواعد اور قوانین ہیں ۔ سوچ یہ ہے کہ ہمارے تمام دینی اور علمی معاملات میں قرآن کافیصلہ ٹھوس بنیاد بن جائے۔ قولی اور عملی طور پر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دستور بنا لیاجائے۔
۲۔ عربی نحو کی خدمت:عربی زبان کی گرائمر کی اس طرح سے حفاظت کی جائے کہ اس کی بنیاد مضبوط ہو، اس کی حفاظت کی جائے اور اس کاانحصار قرآن کریم کی نص پر ہو۔
۳۔ سابقہ گفتگو کا عملی فائدہ:اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے اس کا عملی فائدہ حاصل کیا جائے۔اس کی صورت یہ ہے کہ درس و تدریس میں مشغول علماء کے سامنے نحو قرآنی کا تصور واضح ہوجائے۔ قرآنی نصوص کی روشنی میں رائج نحو کے جن قواعد کی اِصلاح کی ضرورت ہے۔ ان کی اصلاح کردی جائے۔اس سے نحو بھی درست ہوجائے گی اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوجائے گا۔
۴۔ عمومی طور پر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت: اپنی عظیم الشان ہمیشہ رہنے والی وراثت کومقدم کرنے کے ساتھ اسلام اور اہل اسلام کی خدمت ہوگی۔
تبیین و وضاحت
عربی زبان کے قواعد کی وسعت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تمام مضبوط شواہد کو جمع کئے ہوئے ہے اور ان میں سے اہم ترین نص قرآنی ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نص قرآنی سے قاعدہ اَخذ کرنا اسے تاویلات اور فلسفوں سے بچاتا ہے۔ ایسی تاویلات جو صدیوں سے چلی آرہی ہیں ، بعد والے پہلوں سے اسی طرح کسی تردید کے بغیر نقل کرتے چلے آرہے ہیں ۔جس سے یہ تاویلات رائج نحو کا حصہ بن چکی ہیں اور لوگ ان کے عادی بن چکے ہیں ۔
نحو کی صحیح اورمضبوط بنیاد یہ ہے کہ قرآن کریم کو اصل بنایاجائے اور نحو اس کے تابع ہو۔