کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 447
٭ نون کی الف کی شکل میں کتابت:
وَلَیَکُونًا مِّنَ الصَّٰغِرِیْنَ
کلمہ [وَلَیَکُونًا] قرآن مجید میں صرف ایک جگہ وارد ہواہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا اٰمُرَہٗ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُونًا مِنَ الصٰغِرِیْنَ﴾ [یوسف :۳۲]
اس آیت مبارکہ میں کلمہ [وَلَیَکُونًا] اصل میں [وَلَیَکُونَنْ] تھا۔اس سے نون تاکیدکو حذف کردیاگیاہے۔اور اس جگہ تنوین لگا دی گئی ہے۔ اس کلمہ کی بناء کا اختصار معاملہ کی فوری تنفیذ اور سرعت پردلالت کرتا ہے۔کیونکہ عزیز مصر کی بیوی اپنی خواہش کی تکمیل میں سنجیدہ تھی۔
۵۔ قاعدۃ الفصل والوصل
ألَّا ....أن لَّا
کلمہ [ألَّا] موصولہ، قرآن مجید میں (۴۸) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ [أن لَّا] مقطوعہ، قرآن مجید میں دس(۱۰) مرتبہ وارد ہے۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’فنون الأفنان في عجائب علوم القرآن‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ یہ دس حروف اپنی اصل پرلکھے گئے ہیں ۔ کیونکہ ان کی اصل [أَن لَّا] مقطوعہ ہے جبکہ موصولہ حروف کو تلفظ کے مطابق لکھا گیا ہے اور قرب مخرج کے سبب نون کا لام میں ادغام کردیاگیا ہے۔
ہماری رائے کے مطابق اس میں متعدد اسرار و رموز ہیں جو خفیہ معانی پردلالت کرتے ہیں ۔ کلمات کو قطع کرکے لکھنا، فکر وتدبر کے تنوع کافائدہ دیتا ہے۔ اسی لیے یہ کلمات مقطوعہ لکھے گئے ہیں ۔تاکہ اس امر پردلالت کریں کہ کوئی بھی قول و فعل اور قرار طویل غوروفکر کے بغیرسامنے نہیں آتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ أَنْ لَّا أقُوْلَ عَلَی اللّٰہ اِلَّا الْحَقِّ﴾ [الاعراف:۱۰۵]
﴿وأَن لَّا إلٰہَ اِلَّا ھُوَ﴾ [ہود :۱۴]
﴿أَن لَّا یَدْخُلَنَّھَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِسْکِیْنَ﴾[القلم :۲۴]
إِنَّمَا ....إِنَّ مَا
کلمہ [إِنَّ مَا] مقطوعہ، قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہواہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ مَا توعدون لاَٰت﴾ [الانعام :۱۳۴]
امام ابن البناء المراکشی رحمہ اللہ اپنی کتاب، ’’عنوان الدلیل من مرسوم خطِّ التنزیل‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ [إنّ] تاکید یہ کا [ما] سے مقطوع ہونا تفصیل پردلالت کرتاہے۔یعنی اہل خیر کے لیے خیر، اور اہل شر کے لیے شر کا وعدہ کیا گیاہے۔