کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 446
الف کی یاء اور یاء کی الف کی شکل میں کتابت:
رَئَ ا....رَأیٰ
کلمہ [رَئَ ا] قرآن مجید میں (۱۱) مرتبہ وارد ہوا ہے اور ان تمام مقامات پر انسانی بصارت کی رؤیت کے معنی میں مستعمل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فلما جَنَّ عَلَیْہِ الّیلُ رَئَ ا کَوْکَبًا﴾ [ الانعام :۷۶]
﴿فلما رَئَ ا القمر بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّی﴾ [الانعام :۷۷]
یہاں ان آیات مبارکہ میں انسانی رؤیت مراد ہے اور انسانی رویت محدود ہوتی ہے۔ کبھی درست ہوجاتی ہے تو کبھی خطا ہوجاتی ہے۔ہر شے کا احاطہ نہیں کرسکتی۔نیز اس کلمہ [رَئَ ا] کے آخر میں الف کا وجود، رکاوٹ اور حد پر دلالت کرتا ہے۔
مگر جہاں قرآن مجید رؤیت بصیرت مراد لی گئی ہے وہاں کلمہ [ رَأیٰ] مستعمل ہے۔اس کلمہ کے آخر میں یاء کا وجود، لا محدودیت پردلالت کرتاہے۔ اسی لیے یہ کلمہ قرآن میں صرف دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اور دونوں مقامات پر ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معراج کے دوران ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ سے گذر گئے اور وہاں پر آپ نے جو کچھ دیکھا، حق دیکھا۔ ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَٰی﴾
اللہ تعالیٰ واقعۂ معراج کی اشارہ کرتے ہوئے سورۃ النجم میں فرماتے ہیں :
﴿مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رَأیٰ﴾ [النجم :۱۱]
﴿لَقَدْ رَأیٰ مِنْ ئَ ایَٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرَٰی﴾ [النجم :۱۸]
لَدَا ....لَدَی
کلمہ [لَدَا] اس مخصوص رسم پرقرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَقُدّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّألْفَیَاسَیِّدَھَا لَدَا الْبَابِ﴾ [یوسف :۲۵]
اس کلمہ [لَدَا] کے آخر میں ياور کلمہ [الباب] کے شروع میں الف کا وجود اس امر پر دلالت کرتاہے کہ اس کا خاوند دروازے کے بالکل قریب ہی موجود تھا، دروازے اور اس کے درمیان کوئی مسافت نہیں تھی۔
جبکہ کلمہ [لَدَی] بھی قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَأنْذِرْھُمْ یَوْمَ الآزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرَ کٰظِمِیْنَ﴾ [غافر:۱۸]
اس کلمہ [ لَدَی] کے آخر میں ي اور کلمہ [ الحناجر] کے شروع میں الف کا وجود اس امر پر دلالت کرتاہے کہ ان دونوں (دل اور ہنسلی) کے درمیان التصاق کامل نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔