کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 443
الْمَلَأُ ....الْمَلَؤُا
کلمہ [الْمَلَأُ] اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں (۱۸) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ [الْمَلَؤُا] اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجید میں چارمرتبہ وارد ہوا ہے۔
کلمہ [الْمَلَأُ] سے قوم کے اشراف اور معزز لوگ مراد لیے جاتے ہیں جبکہ کلمہ [الْمَلَؤُا] کی آیات مبارکہ میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے عام کافروں کے سردار نہیں بلکہ کفر کے امام اور کفر کے بادشاہ و وزراء مراد لیے جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قالت یأیہا الْمَلَؤُا إنی ألقی إلی کتٰب کریم﴾ [النّمل: ۲۹]
الْعُلَمٰٓؤُا
کلمہ [الْعُلَمَٰٓؤُا] قرآن مجید میں فقط دو مرتبہ وارد ہوا ہے اور دونوں مقامات پر ہی اسی شکل میں وارد ہے۔تاکہ علماء کرام کی عظمت و منزلت پر دلالت کرے۔ کیونکہ یہ عام لوگوں کی مانند نہیں ہیں ۔﴿قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ﴾ [الزّمر:۹]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿أوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ آیَۃٌ اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمَٰؤُا بَنِی إسْرٰءِ یْلَ﴾ [الشعراء :۱۹۷]
﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَٰٓؤُا﴾ [فاطر:۲۸]
بَلآئٌ ....الْبَلٰٓؤُا
کلمہ [بَلآئٌٌ] مرفوع، اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں تین مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ [ الْبَلَٰٓؤُا] مرفوع، اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اس کلمہ کی یہ غیر معروف شکل، بڑی آزمائش کی تبیین و وضاحت کے لیے ہے۔ خصوصاً ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے، جب انہیں اللہ نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دے کرآزمایا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلَٰٓؤُا الْمُبِیْنَ﴾ [الصّافات:۱۰۶]
۴۔ قاعدۃ البدل
الف کی واؤ کی شکل میں کتابت:
امام دانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المقنع‘ میں فرماتے ہیں کہ بعض کلمات قرآنیہ میں الف کو واؤ کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ جیسے [الصَّلَٰوۃ، الزَّکَٰوۃ، الْحَیَٰوۃ، الرِّبَٰوا]
ان کلمات میں واؤ کی شکل میں ، الف کی کتابت متعدد اسرا ر و رموز پر دلالت کرتی ہے۔