کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 442
أرِیکُمْ ....سَأورِیْکُمْ
کلمہ [أُرِیْکُمْ] اپنی اس معروف شکل پر، قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہواہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِیْکُمْ اِلَّا مَا أریٰ﴾ [غافر:۲۹]
جبکہ کلمہ [سَأُورِیْکُمْ] اپنی اس غیر معروف شکل(بزیادۃ الواؤ) پر، قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہواہے۔
﴿وَأمُرْ قَوْمَکَ یَأخُذُوْا بِأحْسَنِھَا سَأورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ [الأعراف:۱۴۵]
﴿خُلِقَ الاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأوْرِِیْکُمْ ء اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ﴾ [الأنبیاء :۳۷]
مذکورہ آیات کریمہ میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کلمہ [أُرِیْکُمْ] فرعون کی زبان سے جاری ہوا ہے وہاں وہ عام رسم کے ساتھ مکتوب ہے۔ اور جہاں کلمہ [سَأورِیکُمْ] اللہ تعالیٰ کی زبان سے جاری ہوا ہے وہاں وہ غیر معروف رسم(بزیادہ الواؤ) کے ساتھ مکتوب ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان پر دلالت کرے۔
الرِّبَٰوا
کلمہ [الرِّبَٰوا] حرف واؤ کی زیادتی کے ساتھ، قرآن مجید میں سات مرتبہ وارد ہواہے۔
جبکہ کلمہ [رِبًا] اپنی اس معروف رسم پر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اس کلمہ [الرِّبَٰوا] کا واؤ کی زیادتی کے ساتھ ورود، سود کے خطرات پر دلالت کرتاہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیاہے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
جبکہ کلمہ [رِبًا] قلیل شے کے ساتھ خاص ہے۔ جس پر لفظ [رِبًا] کااطلاق ہوتاہے۔
مَلَکُوْتَ
کلمہ [مَلَکُوْتَ] میں واؤ اور تاء زائد ہیں ۔ جواصل کلمہ [ملک] پر اضافہ ہیں ۔ اس کلمہ میں واؤ اور تاء کی زیادتی، اللہ کی بادشاہت کی عظمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سمیت ہر شے کا بادشاہ ہے۔
۳۔ قاعدۃ الھمز
امام ابوعمرو دانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المقنع في رسم مصاحف الأمصار‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ بعض کلمات قرآنیہ کے آخر میں ہمزہ کو واؤ کی صورت میں لکھا جاتا ہے اور اگر وہ کلمہ مرفوع ہو تو اس واؤ کے بعد الف زیادہ کر دیا جاتاہے جیسے : [ نَبَؤٌاعَظِیْم]،[تَفْتَؤُا]،[ الْمَلَؤُا]، [الْبَلَٰؤُا]، [شُفَعَٰؤُا] وغیرہ وغیرہ۔اس کے بعد امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شاید اس کا سبب اتصال اور تسہیل ہے۔
لیکن ہم ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں کہ ہمزہ کا مذکورہ صورت میں آنا کئی خفیہ معانی پردلالت کرتا ہے۔