کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 441
فَإِنْ ....أفَإینْ کلمہ [فَإِنْ] اپنی معروف شکل پر، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تذکرہ کے موقع پر کلمہ [ أفَإینْ] یاء کی زیادتی کے ساتھ، اس غیر معروف شکل پر وارد ہے۔ یہاں اس مقام پر کلمہ [ أَفَإینْ] میں یاء کی زیادتی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب تمام انسانوں کی مانند مرجائیں گے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان کی موت کے بعد اپنے دین سے مرتد نہ ہوں اور اس حادثہ سے عدم توازن کاشکارنہ ہوں بلکہ دین کو تھامے رکھیں اور یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس کے لیے دائمی حیات نہیں بنائی۔ قرآن مجید میں یہ کلمہ اپنی اس غیر معروف شکل [ أفَإینْ] پر دو جگہ وارد ہواہے اور دونوں جگہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے ساتھ خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أفَإینْ مِتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُونَ﴾ [الانبیاء :۳۴] ﴿ أَفَإینْ مَاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ ۔۔۔۔۔﴾ [آل عمران :۱۴۴] وَرَ آئَ ....وَرَ آیٔ کلمہ [وَرَآئَ] اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ وارد ہواہے۔ جبکہ کلمہ[وَرَآیئِ] اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہوا ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہ إِلَّا وَحْیًا أوْ مِنْ وَرَآیءِ حِجَابٍ﴾ [الشوریٰ:۵۱] وَإِیْتَآءِ ....وَإِیتَآی ئِ کلمہ [وَإِیتَآئِ] اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جبکہ کلمہ [وَإِیتَآیئِ] یاء کی زیادتی کے ساتھ قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہے۔ اس کلمہ کا یاء کی زیادتی کے ساتھ ورود، اس عطا اور انفاق کی اہمیت پردلالت کرتا ہے اور وہ ہے قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ قرآن مجید نے صلہ رحمی کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔اسی وجہ سے یہ کلمہ [وَإِیتَآیئِ] اپنی معروف شکل سے ہٹ کر آیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إنَّ اللّٰہ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإحسٰنِ وَإِیتَآیءِ ذِی الْقُرْبٰی﴾ [النحل :۹۰] حرف واؤ کی زیادتی :