کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 440
یہاں ان کلمات کے شروع سے نون کا حذف، سرعت پر دلالت کرتا ہے۔ ٭ بعض کلمات کے آخر سے نون کو حذف کیا گیا ہے مثلاً [یَکُ، تَکُ] اور یہ کسی شے کی تصغیر پردلالت کرتاہے۔ ۲۔ قاعدہ الزیادۃ: ٭حرف ِ الف کی زیادتی: شَیْئٍ ....لِشَایْئٍ کلمہ [شَیْئٍ] اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں (۲۰۱) مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جبکہ کلمہ [لِشَایْئٍ] الف کی زیادتی کے ساتھ غیر معروف شکل پر صرف ایک مقام پر وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے: ﴿وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍٍ إنِّی فَاعِلٌ ذَلِکَ غَدًا إلَّا أن یَّشَائَ اللّٰہ ﴾ [الکہف:۲۳،۲۴] یہاں غیر معروف شکل لاکر اس عظیم امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت، ہر مشیت پر برتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَاتَشَآئُ وْنَ اِلآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہ﴾ وَجِایٓئَ کلمہ [وَجِایئَ] الف کی زیادتی کے ساتھ، اس غیر معروف شکل پر، قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہوا ہے اور اس شکل کے علاوہ وارد ہی نہیں ہوا۔ اس کلمہ کا غیر معروف شکل پر وارد ہونا اس امر پردلالت کرتا ہے کہ جوشے لائی جارہی ہے وہ کوئی عظیم شے ہے۔ برابر ہے کہ اس کی عظمت، شان میں ہو، قیمت میں ہو، اخلاق و رتبہ میں ہو یا خوف و ترہیب میں ہو۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دو مثالیں بیان کی ہیں ۔ جن میں سے ایک مثال انبیاء علیہم السلام و شہداء کی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہمارے لیے نمونہ ہیں جبکہ دوسری مثال جہنم کی ہے جو کہ ڈرانے کے لیے ایک ضرب المثل ہے اور انتہائی بُرا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَجِایٓء بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّھَدَآءِ ﴾ [الزّمر: ۶۱] ﴿ وَجِایٓئَ یَوْمَئِذٍ بِجَھَنَّمَ ﴾ [الفجر: ۲۳] أُولُوا الْأَلْبَابِ کلمہ [أُولُوا] الف کی زیادتی کے ساتھ، وارد ہوا ہے، اوراس کلمہ میں الف کی زیادتی، عقل مندوں کی عظمت وانفرادیت اور امتیاز پر دلالت کرتی ہے۔ [أُ ولُوا الألباب] حرف ِ یاء کی زیادتی :