کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 439
﴿وَیَدْعُ الاِنْسَانُ بِالشَّرِّ﴾ [الإسراء :۱۱]
﴿وَیَمْحُ اللّٰہ الْبَاطِلَ﴾ [الشوریٰ:۲۴]
﴿یَدْعُ الدَّاعِ﴾ [القمر:۷]
﴿سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃ﴾ [العلق:۱۸]
امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں واؤ کو ضمہ کی موجودگی کے سبب حذف کیاگیا ہے۔ کیونکہ ضمہ واؤ سے کفایت کرجاتا ہے، یاکسی اور معنی کی وجہ سے حذف کیا گیا ہے۔
مگر امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام مراکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان چاروں افعال کے آخر سے واؤ کاحذف، سرعت ِ وقوع الفعل اور سہولت عمل الفاعل پردلالت کرتاہے۔
کلمہ [یَدْعُ الانسان] میں واؤ کا حذف، اس امر پر دلالت کرتاہے کہ شر انسان پر آسان ہے اور انسان اس کی طرف جلدی کرتاہے، جیسا کہ نیکی کی طرف جلدی کرتا ہے۔
کلمہ [یَمْحُ اللّٰہ الْبَاطِلَ] میں باطل کے بہت جلد مٹ جانے کی طرف اشارہ ہے۔
کلمہ [یَدْعُ الدَّاعِ] میں تیزی سے دُعاکرنے اور اس کے بہت جلد قبول ہوجانے کی طرف اشارہ ہے۔
کلمہ [سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃ] میں سرعت ِ فعل اور شدتِ پکڑ کی طرف اشارہ ہے۔
وَصَٰلِحُ الْمُؤْمِنِینَ
کلمہ [وَصَٰلِحُ] اسم کے آخر سے واؤ کو حذف کردیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَصَٰلِحُ المؤمنین﴾ [التحریم:۴] یہ اصل میں ﴿وَصَٰلِحُو المؤمنین﴾ تھا۔
امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں واحد کا صیغہ، جمع کا معنی دیتاہے۔نیز اس اسم کے آخر سے واؤ کاحذف سرعت اور مومنوں کی وحدت پردلالت کرتا ہے۔
وَأکُنْ من الصَّٰلِحینَ
کلمہ [وَأکُنْ] فعل کے وسط سے واؤ کو حذف کردیاگیاہے۔ کیونکہ اصل فعل تھا [وأکون من الصالحین]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ [المنافقون:۱۰]
یہاں اس کلمہ [وَأکُنْ] کے وسط سے واؤ کا حذف، دونوں افعال کی جلد از جلد ادائیگی پر دلالت کرتاہے۔
٭ نون کا حذف:
٭ قرآن مجید میں دو کلموں کے شروع سے نون کو حذف کردیاگیا ہے۔
﴿ فَنُجِّیَ من نَّشَآئُ ﴾ [یوسف :۱۱۰]
﴿ وَکَذٰلِکَ نُجِّی الْمُؤمِنِینَ﴾ [الأنبیاء: ۸۸]