کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 438
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ﴿ ذٰلِکَ تَأوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا﴾ [الکہف:۸۲] گویا کہ اس آیت مبارکہ میں کلمہ [تَسْطِعْ ] سے تاکا حذف موسیٰ علیہ السلام کی جلد بازی اور قلت صبر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ کلمہ ناقصۃ الحروف آیا ہے۔ اسْطَٰعُوٓا ....اسْتَطَٰعُوٓا اللہ تعالیٰ حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بنائے ہوئے بند کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو انہوں نے یاجوج وماجوج سے قوم کو بچانے کے لیے بنایا تھا۔﴿فَمَا اسْطَٰعُوٓا اَنْ یَظْھَرُوْہٗ وَمَا اسْتَطَٰعُوا لَہٗ نَقْبًا﴾[الکہف:۹۷] پہلی جگہ اللہ تعالیٰ نے بدون تاء کلمہ[اسْطَٰعُوٓا] استعمال کیا ہے اور اس کلمہ کااختصار، ان کے تیزی سے بند پر چڑھنے اور چھلانگیں لگاتے ہوئے نیچے اُترنے پردلالت کرتا ہے۔ یعنی کہ اس کلمہ سے تاء کا حذف سرعت ِ حرکت پر دلالت کرتاہے ہے جبکہ بند کو سوراخ کرنے کی حالت میں کلمہ [ اسْتَطَٰعُوٓا] بالتاء استعمال کیا ہے کیونکہ سوراخ کرنے کا معاملہ ایک طویل وقت کا متقاضی ہے چنانچہ اس طوالت پردلالت کرنے کے لیے کلمہ [ اسْتَطَٰعُوا] بدون نقص، بالتاء استعمال کیا ہے۔ ٭لام کاحذف : الَّیْلِِِ ....النَّھَارِِ کلمہ [الَّیْلِِِ ] قرآن مجید میں (۷۴) مرتبہ وارد ہوا ہے اور ہر جگہ بدون لام [الَّیْلِِِ] ہی وارد ہے۔ جبکہ کلمہ [النَّھَار] قرآن مجیدمیں (۵۴) مرتبہ وارد ہواہے اور ہر جگہ ہی اپنی اسی کامل صورت [النَّھَار] میں وارد ہے۔ کلمہ [الَّیْلِِِ ] سے لام کا حذف، یعنی کلمہ کے حروف اصلیہ میں نقص، اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ رات دن کے مقابلے میں بہت تیزی سے گزر جاتی ہے اور انسان رات کو بہت کم حرکت کرتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رات کو انسان کے لیے لباس اور باعث ِ سکون بنایا ہے۔ اس کے برعکس، دن کو اللہ نے ذریعہ معاش بنایاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اللّٰہ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَِِِ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا ﴾[غافر:۶۱] ﴿وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَِِِ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُبَاتًا﴾ [الفرقان:۴۷] جبکہ کلمہ [النَّھَار] کااپنے معروف رسم پر آنا، طبعی عمل پر دلالت کرتاہے۔ نیز اس کلمہ کا کامل الحروف ہونا دن کی روشنی پر بھی دلالت کرتاہے۔ ................. ٭واؤ کا حذف : قرآن مجید میں چار مرفوع افعال کے آخر سے واؤ کو حذف کیاگیا ہے۔